لانگ مارچ : حمایت‘ شکایت اور ہدایت!


جمعرات کو کراچی میں سیاست غالب رہی لیکن دہشت گردی نے بھی اپنے آپ کو مغلوب نہیں رکھا۔ مگر کوئٹہ اور سوات میں دہشت گردی غالب ہی نہیں رہی بلکہ محسوس اور معلوم یہ ہوا کہ ملک میں دہشت گردوں کا راج ہے.... ”راج!“
کوئٹہ میں سو سے زائد افراد خودکش اور بم دھماکوں کے سبب خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ سوات میں ہمیشہ سے پرامن رہنے والے اور پرامن کہلانے والے تبلیغی لوگوں کے تبلیغی مرکز پر حملہ کر کے دہشت گردوں نے پریشان اور حیران کر دیا۔ جمعرات کی رات پورے ملک کے ہر گھر میں صف ماتم بچھی رہی۔ اس قیامت صغریٰ نے پوری قوم کو تڑپنے پر مجبور کر دیا لیکن تمام صوبائی اور وفاقی حکمران لانگ مارچ کے خلاف حکمت عملی تشکیل دینے میں مگن رہے۔ ایم کیو ایم کے قائدین اور کارکنان اسی دن کی اپنے قائد کی تقریر کے سحر میں گرفتار رہے۔ کوئٹہ کے سانحہ اور سوات کے حادثہ پر بلوچستان اور خیبر کے پی کی حکومتیں سوئی رہیں یا پھر سہمی! اسی طرح وفاقی حکومت اور اس کے سب حلیف کراچی میں سر جوڑے ہوئے تھے کہ‘ اس ”قادری ازم“ کا توڑ کیا ہو گا۔ وہ جو ایک رسم ہے کہ‘ فلاں صاحب نے فلاں واقعہ و حادثہ پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے حکمران اور اپوزیشن لیڈر رسم کی یہ ادائیگی بھی بھول گئے۔ رہی ڈاکٹر طاہر القادری کی بات‘ تو وہ اپنے ہی ”مارچ“ کو جنوری میں برپا کرنے کا ”عزم“ لئے رنج و الم سے بے خبر اور بے نیاز دکھائی دیئے۔
جمعرات کی صبح اور دوپہر کو سیاسی مبصرین اس تجسس پر تبصرہ فرماتے رہے کہ‘ الطاف حسین کس ڈرون حملے سے ڈرانے جا رہے ہیں۔ گویا ایوانوں اور بالا خانوں میں سیاست ”فلک بوس“ دکھائی دے رہی تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دھماکوں نے سیاست سے سحر چھین کر پوری قوم کے لبوں پر نوحہ گری رکھ دی‘ اور قلوب و اذہان کو خوف سے بھر دیا۔ دستِ قاتل ہر گردن کے قریب تر لگا اور قانون بے دست و پا!
الطاف حسین کا ڈرون حملہ جس کا وعدہ جمعرات کو کیا گیا تھا‘ اس کے حوالے راقم کا خیال تھا کہ‘ شاید وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ 10 جنوری 2012ءکی جمعرات کو الطاف حسین کے پاس کوئی حملہ تھا ہی نہیں۔ ان کے پاس جو مایوسی اور دوراہے کی چال تھی۔ اس میں بھی ان کے روایتی اعتماد کا فقدان تھا۔ نہ جانے انہوں نے ایک نان پاپولر‘ غیر ضروری اور غیر یقینی بات کا چنا¶ اس اہم موقع پر کیوں کر لیا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے حوالے سے عجیب اور ”غریب“ انکشافات کو زیب داستان بنانے کی ناکام کوشش کی۔ اس کوشش کے جواب میں پاکستان بھر کے تمام مذہبی اور سیاسی رہنما¶ں نے اظہار مذمت کیا۔ گویا حملہ بھی نہ ہوا اور اوپر سے خواص و عوام کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ گیا۔ قدرت کا اپنا ایک قانون ہے‘ انسان کچھ سوچتا ہے لیکن ہوتا کچھ اور ہے۔ دس جنوری کا ناکام حملہ‘ حملہ ہی نہ بن سکا لیکن اس ناکامی نے 11 جنوری کو ایک کامیابی تراش دی۔ پس دس جنوری کا طے شدہ حملہ پیوند خاک ہوا لیکن گیارہ جنوری کو جو حملہ بظاہر ”طے“ نہیں تھا وہ بڑا کڑاکے دار ہو گیا۔ ایسا کڑاکے دار کہ‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ کا پہلا کڑاکا نکل گیا۔ دس جنوری کو ارشاد الطاف حسین تھا کہ ”طاہر القادری کے لانگ مارچ میں ہر قیمت پر شریک ہوں گے۔“ اس وعدے اور دعوے میں لفظ ”قیمت“ بڑا اہم اور قابل غور ہے۔ اس پر تو کچھ نہیں کہیں گے کہ‘ کس قیمت پر لانگ مارچ کو خدا حافظ کہہ دیا گیا لیکن یہ تذکرہ ضرور کریں گے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو الطاف حسین کے یو ٹرن کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
ڈاکٹر طاہر القادری کو اس حمایت کے خلاف اب یقیناً ایک شکایت ہو گی مگر وہ سمجھیں‘ تو اس میں ایک ہدایت بھی ہے کہ‘ ڈاکٹر صاحب اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں اور اپنے لانگ مارچ کو کسی ”مستقبل بعید“ کے مارچ میں ضم کر لیں کیونکہ الطاف حسین کے دس جنوری کے دانستہ ڈرون حملے کی ناکامی کے بعد گیارہ جنوری کے نادانستہ ڈرون حملے کی کامیابی نے مارچ کی جنوری میں بپائی کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ بقول ناصر کاظمی
حُسن اب ہنگامہ آرا ہو تو ہو
عشق کے دعوے تو جھوٹے ہو گئے
یار لوگ اب حیران ہو کر ایم کیو ایم کے یو ٹرن سے ”زرداری سب پر بھاری“ کے عناصر ڈھونڈنے میں لگ گئے ہیں۔ تھوڑی دیر یہ بھی بھول گئے ہیں کہ کوئٹہ اور سوات میں ہر گھر کی دیوار پر اداسی کیسے بال کھول کر بیٹھ گئی ہے۔ بالا خانوں اور ایوانوں کی طرف متوجہ ہو کر یار لوگ تھوڑی دیر کیلئے پھر بھول گئے ہیں کہ‘ ہر شام کیوں شامِ غریباں بنتی جا رہی ہے اور ہر چراغ گل ہو جانے کے بعد انتظار کے دیپ کیوں بجھتے جا رہے ہیں اور گھروں پر ہونے والے چراغاں قبروں کے چراغ کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ ڈاکٹر طاہر القادری ہوں کہ الطاف حسین‘ آصف علی زرداری ہوں کہ میاں نوازشریف وہ خواص ہی پر فریفتہ کیوں ہیں؟ عوام کیلئے کیوں نہیں اٹھتے؟ نہیں معلوم کہ 14 جنوری والے لانگ مارچ کا حشر کیا ہو یا یہ لانگ مارچ کیا حشر نشر کر دے لیکن ہم طاہر القادری کے سامنے یہ سوال ضرور رکھتے چلیں کہ‘ ڈاکٹر صاحب کیا آپ بھول گئے کہ پاکستان میں ایک ”نظامِ مسلکی“ بھی ہے جو مسلک در مسلک کا سلسلہ رکھتا ہے؟ پھر ڈاکٹر صاحب آپ یہ کیوں بھول گئے کہ‘ آپ کے پہلے تجربات بھی ناکام ہو گئے تھے سو اپنوں کو نظرانداز کر کے غیروں کے کہنے میں آ کر آپ نے غلط وقت پر غلط تجربے کو بروئے کار لا کر ”غلط ناکامی“ کو اپنے ماتھے کا کلنک کیوں بنا لیا؟ جہاں پی پی پی اور مسلم لیگ کی کئی اقسام اور برانچیں ہوں۔ جہاں دیوبندیوں‘ اہلحدیثوں اور بریلویوں کی سیاسی اقسام چار چار پانچ پانچ سے کم نہ ہوں وہاں آپ کے ساتھ کون چلے گا؟ پھر جہاں کل آپ ایک آمر کے سنگ سنگ چل رہے تھے وہاں آج آپ کے ساتھ کسی جمہوریت کیلئے سنگ سنگ چلنے کیلئے کون اعتبار کرے گا؟ حالات و واقعات اور یہ فضا مجھے اعتماد سے آج اس کل کی بات لکھنے کیلئے تقویت بخش رہی ہے کہ کل 14 جنوری کے بعد آئندہ ڈاکٹر طاہرالقادری کیلئے کوئی غلطی کا بھی موقع نہیں بچنے والا‘ لہٰذا بہتر ہے کہ شام تک ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے م¶قف میں تبدیلی اور اپنے رویے میں لچک لے آئیں۔ وہ پاکستان میں آئے ہیں تو دہشت گردی کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کے حق میں اپنا خوبصورت انداز تکلم اور بے مثال تحریریں عمل میں لائیں۔ اس وقت قوم کو ایک بنا¶ کی ضرورت ہے۔ ملک کسی شورش کا متحمل نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کیلئے عوام کو تربیت ساز ماحول فراہم کیا جائے اور کسی بگاڑ کی جانب نہ چلایا جائے۔ عوام کو چاہئے کہ پہلے مرحلے میں اپنی پسندیدہ جماعت کو کسی کرپٹ اور لوٹے کو ٹکٹ دینے سے روکیں اور دوسرے مرحلے میں سیاسی جماعت کو نہیں اور نہ کسی سیاسیات کو مدنظر رکھا جائے بلکہ ووٹ اور سپورٹ دینے کیلئے امیدوار کی انسانیت اور انسانیات کو ملحوظ خاطر رکھیں اور قادری صاحب لانگ مارچ سے قبل بدلتی ہوئی حمایت اور اٹھتی ہوئی شکایت سے ہدایت پائیں تو بہتر ہے.... ورنہ کہیں ایسا نہ کہنا پڑ جائے کہ
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
اب تو خوش ہو جائیں اربابِ ہوس
جیسے وہ تھے ہم بھی ویسے ہو گئے

ای پیپر دی نیشن