اتوار ‘ 1434ھ ‘13 جنوری2013 ئ


چڑیا گھر کے مگرمچھ نے ”ہوش“ میں آ کر اپنے اغوا کی کوشش ناکام بنا دی۔
چڑیا گھر کا مگرمچھ ہوش میں آ گیا، ہمارے مگرمچھ بھی ہوش میں آ جائیں کیونکہ دشمن ہمیں مُردہ سمجھ کر ہڑپ کرنے کے چکر میں ہے۔ ہمارا تو خود ایک بازو 71ءمیں کٹ گیا ہے شاعر نے کہا تھا ....
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہنِ اقبال کا
ایک بازو پہ اُڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارہ نہیں
پاکستانی مگرمچھوں سے اچھا تو چڑیا گھر والا مگرمچھ نکلا جس نے ہوش میں آ کر ڈاکٹر بابر کے ہوش اُڑا دئیے ہیں۔ چڑیا گھر کا ڈاکٹر بابر پاﺅں کا کچا نکلا ہے اگر وہ فراڈ کر ہی رہا تھا تو ”ٹیکہ“ تو ایک نمبر لگاتا تاکہ مگرمچھ اگلے تالاب میں پہنچنے تک بے ہوش ہی رہتا۔ پہلے تو دوائیاں دو نمبر ملتی تھیں اب بے ہوشی کے ٹیکے بھی دو نمبر ملنا شروع ہو گئے ہیں، خدانخواستہ آپریشن کے دوران اگر کسی مریض میں بے ہوشی کا انجکشن کا اثر ختم ہو جائے تو وہاں پر موجود ڈاکٹر تو ایسے بھاگیں گے جیسے مُردہ زندہ ہونے پر ہر کوئی بچنے بچانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ محکمہ صحت کو اپنی ”منجی تھلے“ ڈانگ پھیرنی چاہئے کیونکہ ہر گلی محلے میں دو نمبر دوائیاں گولیاں اور ٹیکے ایسے ملتے ہیں جیسے سرِ شام گلیوں میں گرم انڈے ملتے ہیں۔
”نیم حکیم خطرہ جان نیم مُلا خطرہ ایمان“
والی بات ہے فیکٹریاں رشوت کے بل بوتے پر اپنی ادویات پاس کروا لیتی ہیں اور غریب کے دو اطراف ہی کنواں کھود دیا جاتا ہے۔ جعلی میڈیسن کھا کر مرنے اور بغیر دوائی کھا کے مرنے کا راستہ ہوتا ہے لیکن نیم حکیموں کے جھانسے میں آ کر وہ جعلی دوائی کھا کر ہی مرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
کاش کوئی ”مسیحا“ آ کر اس مُردے سے پوچھے کہ تمہیں موت کیسے آئی تو وہ چیخ اُٹھے نیم حکیم سے!
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
دنیا بھر کے کشمیری کل بھارتی جارحیت کیخلاف یومِ مذمت منائیں گے : وزیراعظم آزاد کشمیر
کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ منفرد جھیلیں، برف پوش پہاڑی سلسلے، لہر دار سبزہ صحرا، صحرائی شکار گاہیں، گنگناتی ندیاں، تاحدِ نظر پھیلے ہوئے گلستان۔ شاعر ظفر جعفری نے کہا تھا ....
جب تک ہے شمع روشن پروانے ہیں دیوانے
جب شمع بُجھے گی تو پروانے ہَوا ہونگے
کشمیر کی شمع کو پاکستان کے ساتھ ہی روشن رہنا چاہئے کیونکہ دلُربا پریاں اور ٹھنڈی ہَوا کے جھونکوں کے باعث اچھا سانس آ جاتا ہے۔ کشمیری بھائیوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف سبز ہلالی پرچم کو بلند کر کے دشمن کے سینے پر مونگ دلنے کا اعلان کیا ہے، اس بہادری پر ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ جب تلک آپکو سینے سے نہ لگا لیں ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ایک وقت تھا کہ کشمیر کی آزادی کیلئے پنجاب میں زبردست احتجاج ہوتے تھے لیکن کچھ عرصے سے اس میں سرد مہری آ چکی ہے، نہ جانے آئینے میں لکیر زیادہ دھوپ لگنے سے آئی یا ٹھاہ کر کے گرنے سے، مذہبی سیاسی اور دیگر جماعتوں کو سوچنا چاہئے کیونکہ ....
”اوپری دل سے“ ہی اس دل کے خریدار بنو
جس چیز کو تم لو گے اُسی چیز کو دنیا لے گی
کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارے تمام دریا کشمیر سے آتے ہیں اور ہماری معیشت زرعی ہے جس کا انحصار پانی پر ہوتا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ایک دن معروف کمپنی کے ملازمین اپنے دفتر پہنچے تو ان کی نظر دروازے پر لگے ایک نوٹس پر پڑی، اس پر لکھا تھا گذشتہ رات وہ شخص جو کمپنی کی اور آپ کی بہتری اور ترقی میں رکاوٹ تھا انتقال کر گیا ہے آپ سب سے درخواست ہے کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کیلئے کانفرنس روم میں تشریف لے چلیں جہاں اس کا مردہ جسم رکھا ہے۔“
یہ پڑھتے ہی پہلے تو سب اداس ہو گئے کہ ان کا ایک ساتھی ہمیشہ کیلئے ان سے جُدا ہو گیا ہے لیکن چند ہی لمحوں بعد انہیں اس تجسس نے گھیر لیا کہ وہ کون سا شخص تھا جو ان کی اور کمپنی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا، اس شخص کو دیکھنے کیلئے سب تیزی سے کانفرنس روم کی جانب ہو لئے۔ کمپنی کے مالک نے ملازمین سے کہا کہ وہ ایک ایک کر کے آگے جا سکتے ہیں اور کفن پوش کا دیدار کر سکتے ہیں۔ دراصل کفن میں ایک آئینہ رکھا ہوا تھا جو بھی کفن کے اندر جھانکتا وہ اپنے آپ کو دیکھتا! آئینہ کے ایک کونے پر تحریر تھا :
”دنیا میں صرف ایک شخص ہے جو آپ کی صلاحیتوں کو محدود کر سکتا ہے یا آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ شخص آپ خود ہیں“
آپ کی زندگی میں تبدیلی آپکے باس کے تبدیل ہونے سے، آپکے دوست احباب کے تبدیل ہونے سے، آپ کی فیملی کے تبدیل ہونے سے یا آپ کی کمپنی تبدیل ہونے یا آپ کا معیار زندگی تبدیل ہونے سے نہیں آتی۔ آپ کی زندگی میں اگر تبدیلی آتی ہے تو صرف اس وقت جب آپ اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کرنا شروع کر دیتے ہیں، ناممکن کو ممکن اور مشکلات کو چیلنج سمجھنے لگتے ہیں۔ اپنا تجزیہ کریں، اپنے آپ کو آزمائیں، مشکلات نقصانات اور ناممکنات سے گھبرانا چھوڑ دیں، فاتح کی طرح سوچیں زندگی کا سامنا کس طرح کرتے ہیں۔ رئیس المتغّزلین مولانا حسرت موہانی نے جس طرح اپنی شاعری کے تین رنگ بتائے ہیں فاسقانہ، عاشقانہ اور عارفانہ، کم و بیش یہ تینوں رنگ اکثر عوام میں پائے جاتے ہیں لیکن اگر ان میں ایک اور رنگ جسے ”مخلصانہ“ کہتے ہیں اپنے اندر سما لیں تو ہر چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ورنہ کبھی نہ کبھی ہمارے بڑوں، فیکٹری مالکان یا باس کو شیشے کو کفن میں رکھ کر ہر کسی کو اس کا چہرہ دکھانا پڑے گا اور اس شیشے کے پاس لکھا ہوا ہو گا .... دیکھتا جا اور شرماتا جا
لہٰذا اگر ہم اپنے آپکو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں کے ساتھ مخلص ہو کر آگے بڑھنا چاہئے، تب دیکھنا آپکے قدم چندا ماموں کے پاس پہنچ جائینگے اور آپ ستاروں پر کمندیں ڈال لیں گے۔

ای پیپر دی نیشن