کوئٹہ/ کراچی/ اسلام آباد (بیورو رپورٹ/ نوائے وقت رپورٹ) کوئٹہ میں بم دھماکوں کے بعد یکجہتی کونسل سے گورنر بلوچستان، وفاقی وزیر مذہبی امور خورشید شاہ نے تین صوبائی وزراءکے ساتھ مذاکرات کئے تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے اور یکجہتی کونسل کے رہنماﺅں نے میتوں کے ساتھ ہونے والے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ، وزیراعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق مصطفی نواز کھوکھر، چیئرمین پی اے سی ندیم افضل چن اور فنکشنل مسلم لیگ نے بلوچستان میں گورنر راج کے مطالبے کی حمایت کر دی ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان، صوبائی کابینہ اور صوبائی اسمبلی کو برطرف کیا جائے، عوام کے مطالبے پر کوئٹہ کو فوری طور پر فوج کے حوالے کیا جائے، وفاقی حکومت ہزارہ کمیونٹی کی دادرسی نہیں کر سکتی تو وہ بھی حکومت چھوڑ دے۔ چیف جسٹس ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کا فوری نوٹس لیکر احکاما ت جاری کریں۔ بیورو رپورٹ کے مطابق گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی اور وفاقی وزیر خورشید شاہ تین صوبائی وزراءطاہر محمود، علی مدد جتک اور مولوی محمد سرور کے ہمراہ یکجہتی کونسل کے رہنماﺅں سے دھماکوں میں جاں بحق افراد کی میتوں کے ہمراہ گذشتہ روز سے جاری دھرنا ختم کرانے اور ان سے تعزیت کرنے کے لئے علمدار روڈ پہنچے ان کے درمیان مذاکرات دو گھنٹے سے زائد دیر تک جاری رہے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔ ذرائع کے مطابق خورشید شاہ نے یکجہتی کونسل کے رہنماﺅں سے کہا وہ صورتحال اور مطالبات کے حوالے سے وزیراعظم سے بات کریں گے وہ اپنا دھرنا ختم کردیں اور انہیں ایک دن کی مہلت دی جائے تاہم یکجہتی کونسل کے رہنماﺅں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کونسل کے رہنماءقیوم چنگیزی کا کہنا تھا گورنر نے ہمارے مﺅقف کی تائید کی کہ اس حکومت کو ختم کیا جانا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا ایک لاکھ افراد کے اجتماع کو بغیر کسی ٹھوس انجام کے منتشر کرنا ممکن نہیں۔ دوسری جانب خورشید شاہ کا کہنا تھا ہم کوئٹہ سے کبھی لاتعلق نہیں رہے، صدر اور وزیراعظم گورنر سے مسلسل رابطے میں ہیں، امن و امان کے لئے ایف سی کو اختیارات دے دئیے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کہاں ہے،گورنر کا کہنا تھا وزیراعلیٰ ہوتے تو انہیں یہاں آنے کی ضرورت نہ پڑتی، میرے اس جواب میں آپ کے لئے بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں۔ یکجہتی کونسل کے رہنماﺅں اور بم دھماکوں میں جاںبحق ہونے والے افراد کے ورثاءکی جانب سے 80سے زائد نعشوں کے ہمراہ شدید سردی اور بارش کے باوجود 30گھنٹے سے علمدار روڈ پر دھرنا جاری ہے۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا حکومت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور ایسے تمام عناصر جو مذہب کے نام پر لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں ان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں عملدار روڈ پر بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کا میتوں کے ساتھ دھرنا دوسرے روز بھی جاری رہا اور شرکاءنے صوبائی حکومت کے خاتمے اور کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ کوئٹہ یکجہتی کونسل کے زیراہتمام سخت سردی اور بارش کے باوجود علمدار روڈ بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین جن میں خواتین، بچے اور عمر رسیدہ افراد شامل ہیں، بدستور اپنے مطالبات کے حق میں علمدار روڈ پر دھرنا دئیے ہوئے ہیں جبکہ انتظامیہ کی جانب سے مذاکرات کے کئی دور ہونے کے باوجود شرکاءاپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یکجہتی کونسل کے رہنماﺅں نے بتایا حکومت کی جانب سے وعدے وعید احتجاج ختم کرانے کیلئے ناکافی ہیں لہٰذا اپنے مطالبات پورے ہونے تک نہ تو اپنے احتجاج کو ختم کریں گے اور نہ ہی اپنے پیاروں کی تدفین کریں گے۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات کامیاب اور دھرنا ختم کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن کوئٹہ یکجہتی کونسل نے حکومتی دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ باچا خان چوک اور علمدار روڈ میں ہونے والے دھماکوں کا ایک اور زخمی چل بسا۔ جس سے جاں بحق افراد کی تعداد 122ہو گئی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے شہر کو فوج کے حوالے کرنے تک پیاروں کو نہیں دفنائیں گے۔ شدید سردی کے دوران آہ و بکا کرتی مائیں بہنوں اور روتے بچوں نے 2روز سے دھرنا دے رکھا ہے۔گذشتہ روز گورنر بلوچستان بھی دھرنے میں گئے۔ وقت نیوز کے مطابق یکجہتی کونسل نے کوئٹہ میں ایک بار پھر دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ وفاقی وزراءخورشید شاہ، وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ اور گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی کوئٹہ دھماکوں میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو میتیں دفن کرنے اور دھرنا ختم کرنے پر آمادہ نہ کر سکے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وفاقی وزراءسمیت گورنر بلوچستان نے دھرنے کے شرکاءاور قبائلی عمائدین سے ملاقات کی اور انہیں دھرنا ختم کرنے، میتیں دفن کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ قبائلی عمائدین نے مطالبہ کیا بلوچستان حکومت ناکام ہو چکی ہے اسے ختم کرنے گورنر راج نافذ کیا جائے اور صوبے کو فوج کے حوالے کیا جائے، تبھی میتیں دفن کی جائیں گی۔گورنر ذوالفقار مگسی نے مذاکرات کے دوران خورشید شاہ کو مشورہ دیا بلوچستان میں گورنر راج نافذ کر دیا جائے۔آئی این پی کے مطابق خورشید شاہ نے کہا اس وقت پورا ملک دہشت گردی کا شکار ہے، کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، وفاقی حکومت سانحہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ہزارہ قبیلے کے سربراہ سردار سعادت علی نے کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنماﺅں سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا میتیں رکھی ہوئی ہیں، اتنے افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد بھی حکومتی نمائندے تعزیت کیلئے نہیں آئے۔ ہم پر ظلم و ستم کی حد ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس سانحہ کوئٹہ کا نوٹس لیں۔ فوج علاقے میں ٹارگٹڈ آپریشن کرے، کوئٹہ فوج کے حوالے کیا جائے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون نے کہا وزیراعلیٰ بلوچستان کے ترجمان کے بیان کو رد کرتے ہیں، بلوچستان اسمبلی سے کوئی تو سانحہ کوئٹہ کے متاثرین کی دادرسی کو آئے۔ الطاف حسین 2 روز سے سوئے نہیں، مسلسل خبرگیری کر رہے ہیں، آج ملک بھر میں یوم سوگ رہے گا، تاجر اپنا کاروبار بند رکھیں۔ بلوچستان حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ حکومتی رویئے کی مذمت کرتے ہیں۔ کوئٹہ کو فوری طور پر فوج کے حوالے کیا جائے اور اگر کوئی آئینی مسئلہ ہے تو گورنر راج نافذ کر دیا جائے۔ مزید براں مشیر وزیراعظم برائے انسانی حقوق مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ہے بلوچستان حکومت امن و امان کے قیام میں ناکام ہو چکی ہے، بلوچستان حکومت فوری طور پر مستعفی ہو جائے، بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کرتا ہوں۔ چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی اور پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے کہا وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی سے فوری طور پر استعفیٰ لے لینا چاہئے۔ موجودہ صورتحال نے واضح کر دیا بلوچستان حکومت ناکام ہو گئی۔ بہتر ہے بلوچستان میں گورنر راج لگا دیا جائے۔ فنکشنل مسلم لیگ نے بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ رہنما فنکشنل لیگ امتیاز شیخ نے کہا ہے بلوچستان حکومت اپنا مینڈیٹ کھو چکی ہے۔ اے این این کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے بلوچستان یکجہتی کونسل کے تمام مطالبات جائز ہیں، دھرنے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ کراچی سے سٹاف رپورٹر کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کوئٹہ اور سوات دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے او رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں اعلان کیاہے کوئٹہ اورسوات میں ڈیڑھ سوسے زائد معصوم افرادکی شہادت پر آج بروز اتوار پورے ملک میں پرامن یوم سوگ منایا جائے گا اور کاروبار بند رکھا جائے گا۔ آئی این پی کے مطابق وزیراعظم کا کوئٹہ بم دھماکوں کے شہداءکے لواحقین کو 10-10لاکھ اور زخمیوں کیلئے ایک، ایک لاکھ روپے امداد کا بھی اعلان۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے امن و امان کی ابتر صورتحال کے پیش نظر وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کو فوراً وطن واپس پہنچنے کا حکم دیا جبکہ گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی سے فون پر رابطہ کرکے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے بلوچستان حکومت کی درخواست پر کوئٹہ میں ایف سی کو پولیس کے تمام اختیارات تفویض کر دئیے۔ وزیراعظم نے کوئٹہ بم دھماکوں کے شہداءکے لواحقین کو 10لاکھ روپے فی کس اور زخمیوں کیلئے ایک لاکھ روپے امداد کا بھی اعلان کیا۔ نمائندہ خصوصی کے مطابق وزیراعظم نے یہ ہدایت وزیر داخلہ رحمان ملک کی طرف سے کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد پیدا شدہ صورت حال پر دی جانے والی پری زنٹیشن کے بعد جاری کیا۔ وزیراعظم نے حکم دیا کہ زخمیوں کو طبی امداد کے لئے کراچی منتقل کرنے کے لئے فوری طور پر پی اے ایف کا سی 130 روانہ کیا جائے۔ وزیراعظم نے وزیر اطلاعات و نشریات کو ہدایت کی کہ وہ امن وامان کی صورتحال کی مانیٹرنگ کے لئے کوئٹہ جائیں وزیراعظم آئندہ ہفتے ہزارہ کمیونٹی کے وفد سے بھی ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم نے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا جنہوں نے انہیں کوئٹہ کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ این این آئی کے مطابق صدر زرداری نے بلوچستان میں امن و امان کے فوری قیام کیلئے صوبے کی تمام سیاسی، مذہبی اور بلوچ قیادت سے فوری مذاکرات کیلئے وزیراعظم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جس میں چودھری شجاعت حسین، ذوالفقار مگسی، رحمن ملک، خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ اور سینیٹر صابر بلوچ شامل ہونگے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور کمیٹی کے ارکان آئندہ ہفتے بلوچستان کا دورہ کریں گے اور وہاں کی قیادت سے ملاقات کریں گے۔ گذشتہ روز صدر نے گورنر بلوچستان کو فون بھی کیا جبکہ زرداری نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر کل پیر کو اہم اجلاس صدارتی کیمپ آفس بلاول ہاﺅس میں طلب کر لیا ہے۔ اس میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔ مزید برآں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی بلوچستان کی صورتحال کا نوٹس لے لیا اور فوری طور پر بلوچستان کے ارکان اسمبلی پر مشتمل 12 رکنی کمیٹی قائم کردی جبکہ سندھ سے پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں کو فوری طور پر بلوچستان جاکر صورتحال کو مانیٹر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا، پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر، پیپلزپارٹی کے سینئر نائب صدر مولا بخش چانڈیو اور سابق وفاقی وزیر اعجاز جکھرانی کو فوری طور پر کوئٹہ پہنچنے کی ہدایت کی ہے جہاں وہ صورتحال کا جائزہ لینگے اور مظاہرین سے مذاکرات کرینگے۔ اسی طرح بلوچستان کے ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جس میں سردار فتح محمد حسنی ، روزی خان ، پیر خالد سلطان ، جاوید احمد شاہ ، علی مدد جتک ، طاہر محمود ، محمد یونس مولادزئی ، حاجی اسماعیل گجر ، جان علی چنگزی ، علی احمد پرخانی ، انجینئر علی احمد اور سردار بہرام خان خلجی شامل ہیں ۔ یہ کمیٹی براہ راست بلاول بھٹو زرداری کو رپورٹ کریگی اور تجاویز دیگی۔