اسلام آباد(سہیل عبدالناصر)شدت پسندوں کی صفوں میں اتحاد مفقود ہے۔ انہیں رقوم کی کمی کا سامنا ہے۔ پناہ گاہیں بتدریج ختم ہو رہی ہیں۔ شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے ہیں یا ان کے خلاف کارروائی کرنی ہے، دونوں کاموں کیلئے یہ موزوں وقت ہے ۔ ایک مستند ذریعہ نے مذکورہ احوال کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کے نئے سربراہ فضل ا للہ ابھی تک تنظیم کے کیڈر سے قریبی رابطہ استوار نہیں کر سکے ہیں۔ مختلف ایجنسیوں کے ذیلی گروپ اپنے طور پر کارروائیں کر رہے ہیں۔ تنظیم پاکستان کے اندر کارروائیوں کی استعداد برقرار نہیں رکھ سکی اب صرف پنجاب سے تعلق رکھنے والے شدت پسند انٹیلیجنس اور چھاپہ مار کارروائیوں کیلئے واحد مﺅثر ذریعہ ہیں۔ بیت اللہ محسود کے زمانہ میں تنظیم مالی طور پر خود کفیل رہی ہے۔ حکیم اللہ کے دور میں بھی حالات برے نہیں تھے لیکن اب تنظیم کے مالی وسائل بتدریج سکڑ رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں تواتر سے فوجی کارروائیوں کے باعث پناہ گاہیں بھی ختم ہو رہی ہیں۔ اب ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ ٹی ٹی یا اس کے بڑے ذیلی گروپوں کے ساتھ بات چیت بھی کی جا سکتی ہے اگر فوجی کارروائی کرنی ہے تب بھی یہ موزوں وقت ہے کیونکہ حکیم اللہ کی موت کے دھچکا سے سنبھلنے کے بعد ٹی ٹی پی پہلے جیسا بڑا چیلنج بن جائے گی۔ اس ذریعہ کے مطابق ایسا بھی نہیں کہ ٹی ٹی پی مکمل طور پر حکومت سے مذاکرات کی مخالف ہے۔ فضل اللہ کے نائب سمیت کئی اہم راہنماﺅں نے غیر رسمی رابطوں کے دوران بات چیت کے حق میں رائے دی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ رواں سال افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلاءکے بعد اس جنگ زدہ ملک میں سلامتی کی صورتحال مکمل طور پر بدل جائے گی اور نئے منظر نامہ میں پاکستانی شدت پسند گروپوں کو افغانستان میں نئے میزبان ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا ۔
موزوں وقت