ای او بی آئی کے پنشنرز کو صرف 3600روپے پنشن

ایک طویل عرصہ سے توقع کی جا رہی تھی کہ ای او بی آئی کے پنشنرز کی طرف سے حکومتی ناانصافی کے خلاف کوئی مشترکہ جدوجہد اور صدائے احتجاج بلند ہوگا لیکن عرصہ دراز کے بعد پنجاب اولڈ ایج ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن قائم کردی گئی ہے۔ راوی ریان ملز کالا شاہ کاکو میں جنرل ورکرز کنونشن منعقد ہوا جس میں پنشنر وں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ بعدازاں مزدوروں نے پنشن کے اضافہ کیلئے ایک ریلی نکالی اور اس حکومتی بے بسی کے خلاف زبردست احتجاج مظاہرہ کیا اور کئی گھنٹے جی ٹی روڈ پر ٹریفک بلاک رکھی۔ یہ ملک جہاں جمہوریت کا ڈھونگ محض، سرکاری ملازمین اشرافیہ اور سیاستدانوں کیلئے ہی بنایا گیا ہے۔ عام آدمی کو محض ٹال مٹول سے ہی وقت گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور پر امن اور بزرگ شہریوں کو بھی احتجاج ریلیوں اور دھرنوں پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں سینئر سٹیزن کو وی آئی پی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں مزدوروں کو ریٹائرمنٹ پر فرنشڈ گھرالاٹ کئے جاتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ، میڈیکل فری کردی جاتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک کی جمہوریت یہ تمام سہولتیں صرف سرکاری ملازمین تک ہی رکھتی ہے جو دوران سروس بھی اعلیٰ ترین سہولتیں ا نجوائے کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ جنت بے نظر انہیں کیلئے ہی مخصوص ہے جو زندگی میں لاکھ اور ریٹائر ہونے کے بعد سوا لاکھ کے بنادئیے جاتے ہیں جبکہ غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایک حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ ای او بی آئی ایسا ادارہ ہے، جس کے اعلیٰ حکام پر اربوں روپے کے غبن اور بدعنوانی کے مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ سابقہ دور کے چیئرمین گرفتار بھی ہیں، ہماری عدالتوں کے جج صاحبان کبھی ان سے یا دیگر ذرائع سے یہ تو دریافت کریں کہ اس ادارہ کے اعلیٰ افسران جن لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ انہیں پنشن کتنی دیتے ہیں۔ موجود پنشن جو صرف 3600 روپے ہے کس طرح کوئی پنشنر اس رقم سے گزارا کر رہا ہے۔ عمرکے اس حصہ میں اس سے زیادہ رقم کی تو اسے ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ای او بی آئی کا ادارہ 1976ءمیں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے بڑی نیک نیتی سے قائم کیا تھا اور اس کے لئے یہ قانون بنایا گیا تھا ہر ماہ تنخواہ کا آٹھ فیصد ملازمین کی تنخواہ سے کاٹا جائیگا اور اتنی ہی رقم حکومت ہر ماہ جمع کرائیگی، مگر بدقسمتی کا یہ عمل 1992ءمیں شروع ہوگیا جب حکومت نے اپنے حصہ کی رقم بند کرنیکا فیصلہ کرلیا اور صرف ملازمین کی رقم ہی جمع ہوتی رہی۔ اس وقت ہر ملازم کی تنخواہ سے 480 روپے پرائیوٹ ادارے کاٹ کر جمع کرا رہے ہیں جبکہ حکومتی حصہ 1992ءسے بند ہے۔ ای او بی آئی کے ایک ڈائریکٹر صاحب نے بتایا تھا کہ اگر حکومت اپنے حصہ کی رقم جمع کراتی رہتی تو آج کم از کم پنشن پندرہ سے بیس ہزار روپے تک ہوتی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ آجکل وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں، وزیر خزانہ سے بھی یہ ضرور پوچھیں کہ ان بزرگوں کے ساتھ یہ زیادتی کیوں کی جارہی ہے۔ وزیرخزانہ کو یہ بتائیں کہ ان بیس لاکھ پنشنرز کے ساتھ کی جانیوالی ناانصافی کو اگر ختم کر دیا جائے تو شاید ان سینئر سٹیزن کی دعاﺅں کی بدولت حکومت بھی پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب ہو جائے، اگر ہماری حکومت نے بزرگوں کو انصاف نہ دیا اور یہ بزرگ جلوسوں اور ریلیوں کے ساتھ سڑکوں پر آگئے تو یہ اکیلے نہیں ہوں گے، ان کے ساتھ ان کے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی ہوں گے تو اس سے ہماری نئی نسل کو کیا پیغام جائیگا۔ اگر اراکین پارلیمنٹ اپنی تنخواہیں اور ڈیلی الاﺅنس میں اضافہ کرلیں گے تو بزرگوں کو اپنے ہاتھ سے دیگر انہیں انتہائی قدم اٹھانے سے روکا جاسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن