اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مذاکرات کا مسودہ پھاڑنے والے جذباتی ذوالفقار علی بھٹو نے بعدازاں ثابت کیا کہ وہ قوم کے لیے محمد علی جناح ثانی تھا۔ بھٹو نے اس وقت کی انڈین پرائم منسٹر اندرگاندھی کے ساتھ ایسی ڈپلومیسی اور کمال خارجہ پالیسی استعمال کی کہ 71ءکی جنگ جو میدانوں میں ہاری گئی تھی بھٹو نے وہ مذاکرات کی میز پر شملہ میں وہ جیت لی۔ بھارت کی قید سے نوے ہزار قیدی چھڑوالیے۔ مغربی پاکستان کا وہ علاقہ جو 71ءکی جنگ کے دوران انڈیا کے قبضے میں چلا گیا تھا وہ بھی واپس مل گیا۔ 1974ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد کرکے سامراجی قوتوں کو ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا اور دنیا کے 54اسلامی ممالک نے بھٹو کو اپنا چیئرمین منتخب کر لیا اور امیر عرب ممالک نے اسلامک بم بنانے کے لیے بھٹو کو لامحدود وسائل اور اختیارات دے دیئے۔ عوام کو سیاسی اور سماجی شعور دلانے کا عزم بھی بھٹو نے پورا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو مغربی سامراج کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا اور اس روز تو حد ہی ہو گئی جب امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو ان مقاصد سے باز رہنے کو کہا اور بصورتِ دیگر بھٹو اور اس کے خاندان کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی دے دی اور اسی جرم کی پاداش میں شاہ فیصل کے قتل سے ابتداءکی گئی۔ قارئین! درجہ بالا تمام مسلمان رہنماﺅں اور سربراہان کو ایک ایک کرکے منظر سے ہٹا دیا گیا اور آج بھٹو کے خاندان کے ہر فرد کو صفحہ¿ ہستی سے مٹا دیا گیا مگر پاکستان اور عالمِ اسلام کے دلوں میں آج بھی انکی حکمرانی قائم ہے۔میں نے ایک دن جب یہ کتاب شہید بے نظیر بھٹو کو پیش کی تو انہوں نے بے اختیار کتاب کو چوم کر سینے سے لگا لیا اور کہا کہ مطلوب میرے باپ کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے عالمِ اسلام کو شعور دینے کی کوشش کی۔ بھٹو کے بعد اسکی بیٹی کو لگ بھگ وہی مسائل درپیش رہے۔ دو دفعہ اقتدار سے ہٹایا گیا، سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ بھٹوز اور اسکے دیئے ہوئے فلسفے کو عوام کے ذہنوںسے تلف کرنا چاہتا تھا مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے ہونے والی شادی کا بھی اس میں کلیدی کردار ہے ۔کراچی میں بمبینو سینما کے مالک حاکم علی زرداری کا بیٹا جب بھٹو خاندان کا داماد بنا تو اس نے دنیا بھر کی دولت سمیٹنے کا لالچ اپنے ذہن میں بسا لیا۔ حقائق گواہ ہیں کہ بی بی کو دو دفعہ اقتدار سے صرف آصف علی زرداری کی کرپشن کی وجہ سے ہٹایا گیا جب کہ تیسری بار محترمہ نے جب پاکستان آنے کا پلان بنایا تو میرے سمیت قریبی ساتھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اس میں آصف علی زرداری کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہ تھا مگر محترمہ کی اچانک شہادت کے بعد ایک خود ساختہ وصیت کا برآمد ہو جانا دراصل اس بات پر مہرتھی کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی ”لیگسی“ اب تھوڑے ہی عرصے کی مہمان ہے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو کے قاتل ڈھونڈ کر ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے ”جمہوریت بہترین انتقام“ اور مفاہمت کی سیاست کواقتدار کا زینہ بنانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ 2008ءمیں محترمہ کی شہادت کےساتھ ہی اقتدار تو حاصل کر لیا گیا مگر وہ فلسفہ اور بھٹوازم جس کیلئے ماضی قریب کی تاریخ میں درجن بھر جیالوں نے خود سوزیاں کیں، ہزاروں جیالوں نے کوڑے کھائے اور لاکھوں جیالوں نے قلعوں اور قید کی صعوبتیں برداشت کیں ، اس فلسفے کو بتدریج دفن کیا جاتا رہا۔ پاکستان میں حکمرانی کے پہلی دفعہ پانچ سال پورے کرنے کا جنون اور نعرہ دراصل پاکستان میں لبرل سیاست کا خاتمہ کرتا ہوا نظر آیا۔2013ءکے الیکشن میں صرف صوبہ سندھ جہاں آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چہیتوں کی حکومت تھی وہاں دھاندلی سے الیکشن جیتا گیا جبکہ باقی سارے ملک میں عوام نے پیپلزپارٹی کی نئی خودساختہ قیادت کو یکسر مسترد کر دیا اور آج حالت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے آغاز کے چوالیس سال بعد آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ یقینا ذوالفقار علی بھٹو صدیوں کا بیٹا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو دخترِ مشرق تھیں۔ ان کو عوام کے دلوں سے حذف نہیں کیا جا سکتا ۔ ابھی چند روز قبل محترمہ شہید کی برسی سے پہلے اسلام آباد میں ہونےوالے پی پی پی کے ایگزیکٹو اجلاس میں سینیٹر اعتزاز احسن نے صحیح کہا تھا کہ اب ہم اس فلسفے کے نام پر دو تین ہزار لوگ بھی اکٹھے نہیں کر سکتے جب کہ دوسری طرف باپ بیٹے کے درمیان اختلافات کی خودساختہ خبریں شائع کروانے کا مقصد دراصل اقتدار کی میراث کو بیٹے تک منتقل کرنا ہے تاکہ پیپلزپارٹی کے وہ 95فیصد لوگ آصف علی زرداری سے نفرت کرتے ہیں وہ بلاول کی طرف راغب ہو جائیں ۔زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی پنجاب کے تنظیمی عہدیداروں، سینئر رہنماﺅں، ضلعی صدور، ڈویژنل کوآرڈینیٹرز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا آج میں بھی ”نیازی“ کے ساتھ کنٹینر پر چڑھ جاتا تو سسٹم فارغ ہو جاتا۔ پھر کسی کے ہاتھ کیا آتا، یہ مجھے معلوم تھا، ہم ایسا کرتے تو تاریخ ہمیں معاف نہ کرتی۔قارئین یقین کریں کہ زرداری صاحب عمران خان کے ساتھ کنٹینر پر چڑھ جاتے تو اگلے روز کرپشن کیسز میں جیل میں بیٹھے ہوتے۔اگر 21ویں ترمیم میں ساتھ نہ دیتے تو بھی جیل ہی مقدر ہوتا۔وہ مقدمات سے بچنے کیلئے نواز حکومت کا دم بھرتے ہیں ۔خورشید شاہ پر بھی اربوں روپے کی کرپشن کے کیس تھے۔اب وہ کہتے ہیں کہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم ہیں۔ ایسا ممکن تو نہیں تاہم کے ہوتے ہوئے کچھ بھی ہوسکتاہے۔ کوئی موقع بن گیا تو کرپشن کے حوالے سے خورشید شاہ ہی میرٹ پر پورا اتریں گے اور پھر ملک کے بچے ہوئے وسائل کا خدا ہی حافظ ہوگا۔