ایک اخبار میں شہ سُرخی کے ساتھ شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’لاہور کے مختلف علاقوں میں جعلی پِیروں کی تعداد میں دِن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور ہر روز ہزاروں لوگ خاص طور پر عورتیں اُن کے ہاتھوں لُٹ رہی ہیں اور اِنتظامیہ کی طرف سے جعلی پِیروں کے خلاف کئے گئے سارے آپریشنز بھی ناکام ہو گئے ہیں‘‘ میرے خیال میں خبر نگار کو صبر کرنا چاہیے۔ مختلف شہروں میں اِس طرح کے آپریشنز تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ یہ کوئی آپریشن ’’ضرب العضب‘‘ نہیں کہ کامیاب ہو؟ بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی کے ’’قولِ فیصل‘‘ کے مطابق ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی!‘‘ تو میری بھی پُختہ رائے یہی ہے کہ ’’پِیر پِیر ہوتا ہے اصلی ہو یا جعلی!‘‘ جب کسی پِیر پر ہزاروں لوگوں کا اعتقاد ہو تو اُسے خبر نگار، پولیس اور اِنتظامیہ ’’جعلی‘‘ کیسے قرار دے سکتی ہے۔ یہ تو پِیر صاحب اور اُن کے مُرِیدان کا آپس کا معاملہ سمجھا جانا چاہیے۔ پولیس اِنتظامیہ اور کسی بھی سطح کی حکومت اِس طرح کے معاملات میں مداخلت کرے گی تو اس سے انسانی حقوق اور پِیر صاحب کے ’’رُوحانی حقوق‘‘ کی خلاف ورزی ہو گی۔
اپریل 1995ء میں وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے پِیر ’’پِیر نواب جہانگیر ابراہیم عُرف اِبراؔ‘‘ کو امریکہ کے دَورے پر اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ وزارتِ خارجہ پاکستان کے پروٹوکول کے مطابق پِیر اِبراؔ کو بیگم نُصرت بھٹو ٗ چودھری حامد ناصر چٹھہّ اور دیگر ممبران پارلیمنٹ کے برابر پروٹوکول دِیا گیا تھا۔ اِس سے پہلے ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ ’’وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کو اُن کے پِیر صاحب (پِیر اِبراؔ) نے مشورہ دِیا تھا کہ ’’امریکہ جانے والے وفد کے ارکان کی تعداد 29 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ 29 کا ہِندسہ وزیرِاعظم کے لئے مبارک ہے۔‘‘ اُنہی دِنوں بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کا بیان اخبارات کی زِینت بنا تھا جِس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ وزیرِاعظم بے نظیر کے بھٹو کے پِیر نواب جہانگیر ابراہیم عُرف اِبراؔ کو میں طویل عرصہ سے جانتا ہوں۔ یہ میانوالی کا ’’کمّی‘‘ ہے اُس نے کچھ عرصہ پہلے داڑھی رکھی ہے اور یہ اپنی ناشائستہ اور احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے نمایاں ہو جاتا ہے۔
مَیں نے 10 اپریل 1995ء کو اپنے کالم میں بیرسٹر اعتزاز احسن سے پُوچھا تھا کہ کیا کوئی ’’کمّی‘‘ (پیشہ ور) شخص پِیر نہیں ہو سکتا؟ لیکن 20 سال کے بعد بھی بیرسٹر صاحب نے مجھے میرے سوال کا جواب نہیں دِیا۔ جناب آصف زرداری کی صدارت کے آخری دور میں ایک خبر شائع ہوئی تھی اور جِس پر مَیں نے اور دوسرے کالم نوِیسوں نے کالم بھی لِکھے تھے۔ خبر یہ تھی کہ ’’صدر آصف زرداری کے پِیر اعجاز احمد نے اُنہیں مشورہ دِیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ تک پہاڑوں سے دُور رہیں۔‘‘ چنانچہ جناب زرداری اُس وقت تک مارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب آباد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد تشریف نہیں لائے، کراچی میں رہے اور برطانیہ کے دَورے پر بھی گئے۔ پِیر نواب جہانگیر ابراہیم عُرف اِبراؔ اور پِیر اعجاز احمد اِن دِنوں کہاں ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ جناب زرداری بھی نہیں جانتے۔ زرداری صاحب تو شاید اپنی اُس پالتو بِلّی کے بارے میں بھی نہیں جانتے ہوں گے جِسے وہ صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہوتے وقت ایوانِ صدر ہی چھوڑ گئے تھے۔ ممکن ہے ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ کے لئے صدرممنون حسین صاحب نے اُس بِلّی کو گود لے لِیا ہو۔ علّامہ اقبال کی ایک نظم کا عنوان تھا ’’گود میں بِلّی دیکھ کر‘‘۔ لیکن کسی بھی شاعر نے ابھی تک ’’صدر ممنون حسین کی گود میں بِلّی دیکھ کر ‘‘ کے عنوان سے کوئی نظم نہیں لِکھی۔ دراصل ایوانِ صدر اور وزارتِ اطلاعات و نشریات میں صدرِ مملکت اور وزیرِاعظم کی پبلسٹی کے ماہرین ہی موجود نہیں ہیں۔ حیرت ہے کہ خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے کسی درباری شاعر نے بھی ’’خادمِ اعلیٰ کی گود میں بِلّی دیکھ کر‘‘ کے عنوان سے طبع آزمائی نہیں کی۔
پِیروں ٗ پِیر زادوں ٗ گدّی نشینوں اور مخدوم صاحبان کے معاملے میں پاکستان پیپلز پارٹی خودکفیل ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی الیکشن کمِشن آف پاکستان میں رجسٹریشن نہیں ہو سکی تھی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے مخدوم امین فہیم صاحب کی چیئرمین شِپ میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ (پی پی پی پی) کے نام سے ایک نئی پارٹی بنوا دی تھی۔ اِس پارٹی نے 2002ء 2008ء اور 2013ء کے انتخابات لڑے۔ اِس وقت بھی پی پی پی پی ہی پارلیمنٹ اور صُوبوں میں موجود ہے لیکن جناب آصف علی زرداری اِس پارٹی کے مخدوم ہیں اور چیئرمین بلاول بھٹو ’’مخدومِ اعلیٰ‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اُن کی مُبیّنہ وصِیّت کا انکشاف کرتے ہُوئے جناب آصف زرداری نے اعلان کِیا تھاکہ ’’مخدوم امین فہیم وزیرِاعظم ہوں گے‘‘ لیکن جب جناب زرداری نے مخدوم صاحب کی جگہ ملتان کے گدّی نشین سیّد یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنا دِیا تو مخدوم صاحب نے کوئی اعتراض نہیں کِیا۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’’سادھاں نُوں سواد نال کِیہہ؟‘‘ یعنی درویش لوگ پیٹ بھرتے ہیں، کھانا مزیدار ہو یا نا ہو؟ سیّد یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد جناب زرداری نے (ایک غیر مخدوم اور غیر گدّی نشِین) راجا پرویز اشرف کو وزیرِاعظم بنایا تو بھی مخدوم امین فہیم نے ’’دیوانِ حافظ‘‘ سے فال نکالی جِس کی پہلی غزل کا ایک مصرع ہے ؎
’’بمَے سجّادہ رنگِیں کن گرت پِیرِ مُغاں گوید‘‘
یعنی اگر تجھے پِیر مُغاں کہے تو (اپنا) مصلیٰ ّ شراب سے رنگ دے۔ حالانکہ مخدوم امین فہیم شراب نہیں پِیتے لیکن وہ جناب زرداری کو اپنا اور اپنی پارٹی کا ’’پِیرِ مُغاں‘‘ ضرور سمجھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے پِیر مخدوم شہاب الدین اور صاحبزادہ سیّد حامد سعید کاظمی کی طرح ’’مخدوم شہاب الدین کو تو جناب ِزرداری نے وزیرِاعظم بھی نامزد کر دِیا تھا لیکن شاید مخالف پارٹیوں کے پاس مخدوم صاحب سے بڑے ’’کرنی والے پِیر‘‘ تھے کہ مخدوم شہاب الدین کے خلاف کچھ مقدمات نکل آئے اور سیّد حامد سعید کاظمی کے خلاف بھی۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین پُوچھ سکتے ہیں کہ ’’کہ جب پارٹی کے اندر کئی پِیر صاحبان ٗ مخدوم اور گدّی نشِین تھے تو جنابِ زرداری نے پِیر اعجاز احمد کو اپنا پِیر کیوں بنایا؟ پنجابی کا ایک اکھان ہے کہ ’’گھر دا جوگی جوگرا ٗ باہر دا جوگی سِدّھ‘‘ یعنی زرداری صاحب نے اپنی پارٹی میں شامل پِیروں کے بجائے پِیر اعجاز احمد کی مُرِیدی اختیار کر لی۔ وہ اُنہیں زیادہ عامل ٗ کامل نظر آئے۔ اُستاد رشکؔ نے نہ جانے کس موڈ میں کہا تھا کہ ؎
’’پِیر ہو کر اِلتجا لے جائے جو، پیشِ مُرید
پِیر کے دِن سے، بُرا گِنتا ہُوں ایسے پِیر کو
برطانیہ میں ’’نظریۂ پاکستان کونسل‘‘ کے صدر، گلاسگو کے ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربّانی نے بتایا کہ ’’گزشتہ کئی سالوں سے برطانیہ میں پِیروں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور وہاں آباد بہت سے پاکستانی اپنے اپنے پِیر کا بہت احترام کرتے ہیں اور اُنہیں اپنے بچوں کی اصلاح اور رُوحانی تربیت کے لئے پاکستان سے مدعُو کرتے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا کہ مَیں نے بھی برطانیہ ٗ کینیڈا اور امریکہ میں بہت سے ہِندوئوں کو دیکھا ہے کہ جو ’’اپنا اپنا بھگوان‘‘ (کسی دیوتا کا بُت ) اپنے ساتھ (پاس) رکھتے ہیں۔ یعنی ؎
’’دِل کے آئینے میں ہے ’’تصویرِ پِیر‘‘
جب ذرا گردن جُھکائی، دیکھ لی‘‘
مَیں نے ’’بابائے امن‘‘ سے پُوچھا کہ ’’مَیں نے کئی ایسے بھی پِیروں کو بھی دیکھا ہے جو اپنے مُرِیدوں سے باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ میں پکڑی تسبیح بھی گھُماتے رہتے ہیں۔ مَیں نے ملک غلام ربّانی کو ’’شاعرِ سیاست‘‘ کا ایک سیاسی ماہِیا بھی سُنایا تو وہ وقتی طور پر ناراض ہو گئے۔ ماہِیا ہے ؎
’’دوزخ توں ڈرائی جاندا
پِیر میرا گلّاں کردا
نالے تسبیح گُھمائی جاندا‘‘
’’بابائے امن‘‘ نے کہا کہ ’’شاعرِ سیاست‘‘ ہوراں نُوں آکھو پئی پِیراں تے ہتھّ ہولا رکھیا کَرن کُجھ پِیر چنگے وِی ہوندے نیں۔‘‘
مَیں نے ’’بابائے امن‘‘ کی بات مان لی ہے۔