لاہور (سید شعیب الدین سے) چاروں صوبوں کی واحد نمائندہ جماعت کا دعویٰ کرنیوالی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی آج ایک ایسے دوراہے پر آکھڑی ہوئی ہے اور ایسے مشکل وقت کا سامنا ہے جو بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے والے جنرل ضیاءالحق کے گیارہ سال اور جنرل پرویز مشرف کے 9 برسوں میں بھی نہیں کیا تھا۔ پارٹی کی قیادت مشکل وقت میں کبھی تقسیم نہیں ہوئی تھی مگر آج بینظیر بھٹو کے صاحبزادے اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے والد اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے سامنے کھڑے ہیں اور باپ بیٹے کے درمیان مصالحت اور بلاول کو راضی کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ بلاول کی ”وراثت“ کے حصول کے لئے والد کے سامنے کھڑے ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو کی وصیت کے ”دوسرے حصے“ کو سامنے لانے کی بات کی جا رہی ہے جبکہ بے نظیر بھٹو کی وصیت کے پہلے حصے کے حوالے سے آج بھی تحفظات پائے جاتے ہیں کہ یہ کس حد تک ”اصلی“ ہے۔ پارٹی کے خیر خواہوں کا کہنا ہے اگر وراثت کی ”تصدیق“ کے نام پر کوئی نئی وصیت تخلیق کی گئی تو زیادہ انتشار پھیلے گا۔ پیپلزپارٹی میں ”تازہ انتشار“ بلاول بھٹو زرداری کے 25 برس کی عمر کو پہنچنے اور پارٹی کا چیئرمین بننے کے بعد پیدا ہوا ہے۔ آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست سے بلاول بھٹو زرداری کو اختلاف ہے۔ بلاول نے اپنی صرف دو تقاریر سے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کو ناراض کر دیا ہے۔ آصف زرداری نے اپنے ”اتحادیوں“ کو ناراض کرنے پر بلاول سے ناراضگی کا اظہار اس قدر کھل کر کر دیا معاملہ بری طرح بگڑ چکا ہے۔ دوسری طرف آصف زرداری کو پنجاب کے سابقہ اور حالیہ دورے کے دوران پارٹی کی سطح پر بھی پارٹی عہدیداروں کے کڑے سوالوں کا جواب دینا پڑا ہے۔ پیپلزپارٹی میں ماضی میں کبھی عہدیداروں کی جانب سے پارٹی کے ”سربراہ“ کی کھینچائی یا اس پر تنقید کی مثال نہیں ملتی۔ آصف زرداری کو پنجاب میں بلاول ہا¶س میں ملاقاتوں کے دوران یہ بخوبی احساس ہو گیا ہو گا کہ پنجاب میں پارٹی کے دو گروپ موجود ہیں جن میں ایک میاں منظور وٹو کا حامی اور دوسرا مخالف گروپ ہے۔ بلاول بھٹو کی غیر حاضری کا بھی ورکرز اور عہدیداروں نے کھل کر پوچھا۔ سابق صوبائی وزیر اشرف کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کو جیالوں اور پارٹی ورکروں سے دور کر کے پارٹی اور ورکرز کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ آصف زرداری کو اس موقع پر یہ احساس ہو گیا ہو گا بے نظیر بھٹو کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کی عوام اور ورکرز میں سٹینڈنگ ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ اپنے قریب دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی اپنے والد سے ناراضگی اسقدر بڑھ چکی ہے وہ بیرون ملک جا بیٹھے ہیں۔ ان کے حوالے سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں وہ صنم بھٹو اور پرانے انکلز کو اکٹھا کر کے باپ کے مقابلہ پر آرہے ہیں پھر ایک خبر گردش کی کہ بلاول بھٹو صنم بھٹو کے ساتھ غنویٰ بھٹو سے ملتے ہیں اور فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کو ساتھ لیکر چلنے کی بات کی ہے۔ ان خبروں میں حقیقت کتنی ہے اس سے قطع نظر یہ خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔ آصف زرداری کی پیپلزپارٹی مشکل میں ہے۔ پنجاب میں وٹو حامی اور وٹو مخالف گروپ ہے۔ آصف زرداری کیلئے ایک مشکل اپنی مفاہمت کی پالیسی پر چلنا بن گیا ہے کیونکہ اس صورت میں بیٹا بھی ہاتھ سے جا رہا ہے اور پارٹی بھی خراب ہو رہی ہے۔
پیپلزپارٹی دوراہے پر