ابوالاثر حفیظ جالندھری کی ایک سو سولہویں سالگرہ

سلام مچھلی شہری یو پی (انڈیا) کے مشہور شاعر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک مرتبہ سلام مچھلی شہری لاہور آئے تو ادیبوںاور شاعروں کی ایک محفل میں انہوں نے شرکت کی۔ اس محفل میں حفیظ جالندھری بھی موجود تھے۔ حفیظ جالندھری کو مخاطب ہو کر سلام مچھلی شہری نے کہا۔
شاہنامہ اسلام لکھنے والے
اسلام کو شاہی سے نسبت کیا
پنجابی ہونے کے ناتے حفیظ جالندھری کو طنز اََ کہا۔ ”پنجابی بھی کوئی زبان ہے۔ چار دن میں سیکھی جا سکتی ہے۔ میں لاہور میں چار دن رہوں تو ایسی پنجابی بولوں، ایسی پنجابی بولوں کہ ۔۔۔“
سلام مچھلی شہری کے فقرہ مکمل ہونے سے قبل محفل میں موجود قیوم نظر نے کہا ”بیٹھ اوئے کھُسن“ ”گھوسون کیا ہوتا ہے“ سلام مچھلی شہری نے کہا۔ قیوم نظر نے کہا ”پہلے کھُسن کہوو۔ فیر میں ”ڈھڈ“ کہن لئی آکھاں گا“ قیوم نظر کو حفیظ جالندھری کی تحقیر برداشت نہ ہوئی، اس لیے انہوں نے حفیظ جالندھری کا پورا پورا دفاع کیا۔
یہ واقعہ مجھے حفیظ جالندھری کی ایک سو سولھویں سالگرہ کے موقع پر یاد آیا۔ حفیظ جالندھری نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلم لیگ کے جلسوں میں اپنی شاعری سے لوگوں کا لہو گرماتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کارکن تحریک پاکستان گولڈ میڈل دیا گیا۔ حفیظ جالندھری شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار اور مدیر بھی تھے۔ وہ شباب اردو، نونہال، ہزار داستان اور مخزن کے ایڈیٹر رہے۔ انکی شعری کتب میں نغمہ زار، تلخانہ شیریں، سوزوساز، شاہنامہ اسلام (4 جلدیں) اور حفیظ کے گیت۔ نغمے (چار جلدیں) شامل ہیں۔ ہفت پیکر کے نام سے ان کا افسانوی مجموعہ شائع ہوا۔ ”چیونٹی نامہ“ نثری کتاب تھی۔ بچوں کیلئے بھی انہوں نے شاعری کی۔ بعض لوگ انہیں متکبر سمجھتے تھے۔ انکے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ وہ بے حد ملنسار اور محبت کرنیوالے انسان تھے۔ البتہ وہ خود دار ضرور تھے۔ انکی خود داری کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب شعر و ادب میں، میں نووارد تھا۔ ایک کالج کے طلبا میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ کالج میں سالانہ مشاعرہ کرانا چاہتے ہیں۔ پرنسپل کی خواہش ہے کہ صدارت حفیظ جالندھری کریں۔ آپ ہمارے ساتھ انکی رہائش گاہ پر چلیں۔ انکی رہائش ماڈل ٹاو¿ن میں تھی۔ میری ان سے ایک دو ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ جب ہم حفیظ صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ کوٹھی سے باہر تشریف لائے۔ میں نے اپنا اور طلبا کا تعارف کرایا۔ طلباءنے حفیظ صاحب کو اعزازیہ پیش کیا اور کہا کہ آپ ہمیں رسید دے دیں تا کہ ہم پرنسپل کو دے سکیں۔ حفیظ صاحب نے رقم واپس کرتے ہوئے کہا۔ ”رسید میں نہیں دیاں گا۔ تسیں ایہہ پیسے واپس لے جاو¿“ میں نے اس صورتحال کو سنبھالتے ہوئے حفیظ صاحب سے کہا۔ رسید کی ضرورت نہیں۔ طالب علموں نے یونہی کہہ دیا۔ اس واقعے سے آپ انکے مزاج کا اندازہ کر سکتے ہیں۔لندھری کو زندگی میں مشکلات اور پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ اس حوالے سے ان کا شعر ہے۔
انہیں کیا خبر میری دشواریوں کی
ستارے فقط آسمانوں سے گزرے
صادق آباد میں مقیم اردو اورپنجابی کے معروف شاعر اور ادیب بشیر بیتاب میرے مخلص دوست ہیں۔ میں انہیں اپنے بڑے بھائی کا درجہ دیتا ہوں۔ حفیظ جالندھری، بشیر بیتاب کو اپنا بڑا بھائی کہتے تھے۔ صادق آباد کے قریب گوٹھ عالو میں بشیر بیتاب کا فارم ہاو¿س ہے۔ اس فارم ہاو¿س میں حفیظ جالندھری نے ایک ہفتہ قیام کیا۔ بشیر بیتاب کی جنم بھومی بھی ضلع جالندھر (تحصیل نکودر) میں ہے۔
بشیر بیتاب نے بتایا کہ ”حفیظ جالندھری کے ساتھ میرا تعلق اگرچہ بہت پرانا نہ تھا مگر جب یہ تعلق پیدا ہوا تو یوں لگا جیسے ہم برسوں کے شناسا اور مدتوں سے ایک دوسرے کو چاہنے والے ہیں۔ میرے فارم ہاو¿س پر تشریف لائے تو صادق آباد کے ایک بڑے جاگیر دار کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور میرے غریب خانے ہی پر قیام فرمایا۔ لوگوں نے کتابوں پر ان سے آٹو گراف لی۔ میں نے بھی آٹو گراف کیلئے کتاب انکے سامنے رکھی تو فرمایا۔ میں خود تمہارا ہوں۔ تم میرے چھوٹے بھائی ہو۔ میرے دستخط کیا کرو گے۔ چند دن میرے پاس رہے، واپس لاہور جا کر خط لکھتے ہے۔ انہوں نے ایک خط میں لکھا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں بقایا زندگی تمہارے پاس رہوں۔ مجھ پر ایک دو ذمہ داریاں ہیں، انہیں نمٹا کر تمہارے پاس چلا آو¿ں گا“۔ اسلامی شاعری میں حفیظ کا مقام بہت بلند ہے لیکن غزل اور گیت میں بھی ان کا مقام علیحدہ اور نمایاں ہے۔ ان کا شعر ہے۔
کیا پابند نے نالے کو میں نے
یہ طرزِ خاص ہے ایجاد میری
یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک طرزِ خاص کے موجد تھے۔ حفیظ جالندھری بشیر بیتاب بیتاب کو اپنا چھوٹا بھائی جبکہ پروفیسر حمید کوثر کو اپنا منہ بولا بیٹا کہتے۔ پروفیسر حمید کوثر بلند پایہ شاعر، ادیب، نقاد اور استاد تھے۔ وہ اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ لاہور) میں اردو کے استاد تھے۔ وہاں مجھے انکی شاگردی کا شرف حاصل رہا۔ حفیظ جالندھری نے حمید کوثر صاحب کو اپنی علمی اور فکری میراث کا وارث قرار دیا تھا۔ حمید کوثر کی جنم بھومی بھی جالندھر میں ہے۔ پروفیسر حمید کوثر نے ہر فورم پر حفیظ صاحب کا دفاع کیا اور انکی سالگرہ اہتمام سے مناتے رہے۔ حفیظ جالندھری بھی اپنے منہ بولے بیٹے حمید کوثر سے بے پناہ پیار کرتے تھے۔ 14جنوری 1981ءمیں حفیظ جالندھری کی 81ویں سالگرہ تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک نظم ”فرزند نامہ“ لکھی۔ نظم کا پہلا اور آخری شعر ملاحظہ کریں۔
پیارے حمید کوثر! ہاں، خوش نصیب ہوں میں
بیٹے کے اور بہو کے ہر دم قریب ہوں میں
اس مرتبہ کسی کو میں نے نہیں بلایا
فرزند، بس تمہی ہو بے شک بلند پایہ
پروفیسر حمید کوثر کی وفات کے بعد انکے اکلوتے صاحبزادے مجید غنی اپنے والد کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن