اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ بی بی سی+ صباح نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کو بند کمرے کی بریفنگ میں بتایا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے زمینی فوج مانگی اور نہ ہی بھجوائی جائیگی۔ پاکستان کی فوج صرف اقوام متحدہ کے امن مشنز میں بھجوائی جاتی ہے، اسکے علاوہ کہیں فوج بھجوانے کی ہماری پالیسی ہی نہیں۔ مجلس قائمہ کا اجلاس صدر مجلس سردار اویس خان لغاری کی زیرصدارت ہوا۔ ذرائع کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے 34 ملکی اتحاد کا حصہ ہے۔ بطور رکن ہمیں کہیں فوج متعین کرنے کی ضرورت نہیں البتہ پاکستان انسداد دہشت گردی کیلئے تربیت، تکنیکی معاونت، معلومات کا تبادلہ اوراسلحہ کی فراہمی میں حصہ لے گا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران اور سعودی عرب تنازع میں پاکستان فریق نہیں بنے گا۔ انہوں نے مجلس قائمہ کو بتایا کہ حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی وزیرخارجہ اور وزیردفاع نے پاک فوج سعودی عرب بھجوانے کی درخواست نہیں کی۔ مشیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ایران سعودی عرب تنازع پر اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس 16 جنوری کو ہوگا ، پاکستان کشیدگی کے خاتمہ کیلئے اپنی تجاویز دیگا۔ بعد ازاں مجلس قائمہ کے سربراہ اویس لغاری نے میڈیا کو بتایا کہ سرتاج عزیز نے بریفنگ میں سعودی عرب اور ایران کشیدگی پر حکومتی موقف سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ایران سعودی عرب کشیدگی کے حل کیلئے کوشش کی جارہی ہے۔ مجلس قائمہ نے ایران سعودی کشیدگی کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو سراہا ہے جو ہمارے قومی مفادات کے مطابق ہے۔ سعودی قیادت میں بننے والا اتحاد کوئی تحریری نہیں بلکہ یہ مفاہمت پر مبنی ہے۔ ایران اورسعودی عرب کے درمیان کشیدگی کی وجہ شام اور یمن کے مسائل ہیں ۔ بند کمرے کے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان شامل ہوئے جنہوں نے اس معاملہ پر اپنی بھرپور رائے دی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا انسداد دہشت گردی اتحاد کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں ہے۔ صباح نیوز کے مطابق پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کیلئے کاوشیں شروع کردی ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو آگاہ کردیا گیا۔ کمیٹی نے سعودی ایران تنازعے پر پاکستان کی ثالثی کی متوازن پالیسی اور دہشت گردی کیخلاف 34 رکنی عسکری اتحاد میں شمولیت کے فیصلے کی توثیق کردی ہے۔ کمیٹی نے قرار دیا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر پاکستان نے صحیح راستے کا انتخاب کیا۔ قائمہ کمیٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یمن اور شام کے مسائل شیعہ سنی تنازعے میں تبدیل ہوئے ہیں نہ اس حوالے سے متعلقہ دونوں ممالک نے کسی ایسی اپروچ کا مظاہرہ کیا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے پاکستان میں بھی پوری قوم سے سعودی ایوان کشیدگی کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دینے کی اپیل کی ہے۔ اس امر کا اظہار قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سردار اویس احمد لغاری نے کمیٹی اِن کیمرہ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ سردار اویس احمد لغاری کے مطابق کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کیلئے کاوشیں شروع کردی ہیں جبکہ شام کے مسئلے پر بھی ایران امن مذاکرات پر آمادہ ہوگیا ہے۔ کمیٹی کو یہ بھی اطمینان ہے کہ یہ ہرگز فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے۔ دونوں ممالک نے بھی شام اور یمن کے مسئلے پر کسی ایسی سوچ کا مظاہرہ نہیں کیا، اسی طرح پاکستان دہشت گردی کیخلاف 34 رکنی عسکری کولیشن کا حصہ بنا ہے۔ ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی نے رائے دی کہ وزیراعظم 16 جنوری کے او آئی سی اجلاس سے دو روز قبل پارلیمانی لیڈرز کے ساتھ مشاورت کریں اور وزارت خارجہ کے ذمہ داران کو قومی مشاورت کے ساتھ جدہ میں ہونے والی اس کانفرنس میں شریک ہونا چاہئے۔ بی بی سی کے مطابق اس اِن کیمرہ اجلاس میں شامل ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران، سعودی عرب تنازع میں پاکستان کسی بھی طور پر اتحاد کا حصہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایران سعودی کشیدگی کی وجہ فرقہ ورانہ نہیں ہے بلکہ یہ شام اور یمن کے معاملات پر دونوں ممالک کا الگ الگ نکتہ نظر ہونے کی وجہ سے ہے۔دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ نے مشیر خارجہ کی ان کیمرہ بریفنگ پر بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاع، انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ سعودی عرب کی سلامتی کو کسی خطرے کی صورت میں بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سعودی قیادت میں بننے والے اتحاد کا خیرمقدم کیا۔ سعودی عرب پاکستان کا قریبی دوست ہے۔ مستقبل قریب میں سعودی مشاورتی اجلاس میں اتحاد کے پہلوؤں، سرگرمیوں کا فیصلہ ہو گا۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بین الاقوامی اور علاقائی تعاون کا خواہاں ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف 34 ملکی اتحاد پر اپنے ابتدائی مؤقف پر قائم ہے۔