منگل دس جنوری کو تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کی جانب سے عدالت میں اس بات کا اعتراف کرنا کہ وہ تومحض ا سٹپنی وکیل ہیں اور یہ کہ حامد خان کے الگ ہونے سے اس کیس کاسارا بوجھ ان کے کندھوں پر آگیاہے ،اس فقرے سے معلوم ہوتاہے کہ اس کیس کے سلسلے میں پی ٹی آئی کو اس وقت کچھ اندرونی پریشانیوں کا سامنا ہے ،نعیم بخاری صاحب عدالت میں شاید معاملات کو ذرا نرم انداز میں چلارہے ہیں ممکن ہے اس وجہ سے پی ٹی آئی کے کچھ سرگرم ممبران اور ان کے وکیل نعیم بخاری میں کسی قسم کا اختلاف رائے موجود ہو؟۔!! اس فقرے کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف کی فیملی کے وکلاءنے جب اپنے دلائل کو زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرنا شروع کیاتو محترم نعیم بخاری صاحب کی عدالت میں غیر موجودگی کو سب نے نوٹ کیا اور لگتاہے یہ ہے کہ کہیں یہ معاملہ نعیم بخاری کے اس مقدمے سے علیحدگی کی صورت میں نہ ظاہر ہو جوکہ پی ٹی آئی والوں کے لیے کوئی اچھا شگن ثابت نہ ہوگا کسی بھی کیس کے اہم موڑ پر اس انداز میں وکیلوں کو بدلنا کوئی اچھی صورتحال نہیں سمجھی جاتی امید تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی والوں کو شاید اس قسم کی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا لیکن اگر ایسا ہوا تویہ پی ٹی آئی کے لیے غیر مفید ثابت ہوگا اور اس کافائدہ وزیراعظم کو ہوگا،نواز شریف کے وکلاءکے دلائل کے بعد تحریک انصاف کے وکیل کوجوابی دلائل دینا ہونگے لہٰذاان کے لیے بہتر حل یہ ہے کہ یہ دلائل بھی نعیم بخاری ہی دیں جنھوں نے ابتدائی طور پر یہ مقدمہ عدالت میں پیش کیاتھا جیسے جیسے وقت گزررہاہے اس کافائدہ نوازشریف صاحب کو ہورہاہے کیونکہ اب وقت بہت تیزی سے گزرکر انتخابات کی طرف بڑھ رہاہے ،لہٰذا اس کیس کے
لمباہونے سے نوازشریف صاحب کو ایک اہم موقع ملتاہے کہ وہ عوامی فلاح وبہبود کے اقدامات کو زیادہ سے زیادہ اٹھاکراپنے لیے ایک مثبت فضاءکو قائم کریں جس کا فائدہ انہیں آئندہ انتخابات میں مل سکتاہے ،اس سلسلے میں اگر ہم پنجاب اور فیڈرل حکومتوں کی جانب سے اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں بڑے بڑے اور رنگین اشتہارات کو دیکھیں توایسا لگتاہے کہ حکومت نے اپنے لیے انتخابی مہم کا آغازکردیاہے،اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ پانامہ لیکس کے اس کیس پر پوری قو م کی نظریں لگی ہوئی ہیں یہ جملہ محض ایک اس ملک میں بے روزگاری ہے ،مہنگائی ہے لوڈشیڈنگ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ لوٹ مار کیسے کی جاتی ہے اور ہمارے حکمران کس کس انداز میں ہمیں لوٹتے رہے ہیں مگر اس کے باجود ووٹ بھی انہیں کو دیناہے !!اس سارے عمل میں پھرقوم کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی پریشانیو ںکو چھوڑ کر پانامہ کے ہنگاموں میں الجھتی پھرے ۔ویسے دیکھا جائے تو اس بات پر تجزیہ نگاروں کا اتفاق پایا جاتاہے پنجاب اور فیڈرل حکومت انسانی بہتری کے کاموں میں دیگر صوبوں سے بازی لے گئے ہیں اگرچہ اس میں بہت سی ہھیرا پھیریاں ہیں مگر اس سے قبل جب حکومت پیپلزپارٹی کی تھی تب انہیں کراچی خصوصاً سندھ کی ترقی کرنے سے کس نے روکاتھا؟ بہر حال پی ٹی آئی کے وکیل کے نعیم بخاری نے خود ا سٹپنی وکیل کے طوپرظاہر کیا، ا سٹپنی وہ ایکسٹراٹائر ہے جسے محدود وقت کے لیے ضروریات پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے اور پھر فارغ کرکے گاڑی کی ڈگی میں ڈال دیاجاتاہے ۔اس عمل سے ہوسکتاہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان خوش نہ ہوں کیونکہ وہ کسی حد تک نعیم بخاری صاحب کو اپنے لیے امیدوں کا مرکز سمجھتے ہیں، اس وقت شریف فیملی کے وکلاءاپنا دفاع پیش کرینگے تو یقیناً پی ٹی آئی کے اس اندرونی اختلافات سے حکومتی پوزیشن بہترہوجائے گی ،محترم
شیخ رشید صاحب بھی شاید نعیم بخاری کے ریماکس سے خوش دکھائی نہیں دیتے وہ سمجھتے ہیں کہ نعیم بخاری نے شاید اس مقدمے کو الجھا دیاہے۔اس سارے عمل میں وزیراعظم کا اعتماد بڑھ رہاہے یہ ہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں عدالتوں میں روز اس مقدمے کو سنا جارہاہے تو دوسری طرف وزیراعظم انسانی فلاح وبہبود سے جڑے منصوبوں کے افتتاح میں مختلف نیوز چینلوں میں دکھائی دیتے ہیں اور ہر ایک تقریب میں عوام میں بے روزگاری کے خاتمے کے ساتھ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید سنادیتے ہیں یہ عمل بے شک ایک سیاسی عمل ہے اور حکومت کے اسی سیاسی انداز نے جہاںپی ٹی آئی اور اپنی مخالف جماعتوں کو اس مقدمے تک محدود کردیاہے وہاں حکومت کھل کر عوام میں اپنے کارناموں کی داستان سنانے میں مگن ہے ۔