کون روک سکتا ہے کسی بھی زور آور کو انوکھے کھیل رچانے سے اور کون نصیحت کرنے کا روگ پا لے کہ اپنی نئی نسل کو اپنے پرانے بزرگوں کا حوالہ دیکر روشن مستقبل بنانے کی تلقین کرے۔لوگوں کو بہت زیادہ شوق ہے کہ وہ جلدی سے گول زمین کو گیند بنا کر اپنی جیب میں رکھ لیں اور پھر ساری کائنات کے جلدی سے اتنے پائیدار حکمران بن جائیں کہ کوئی ان کی کرسی کو بالکل بھی نہ ہلائے۔کرسی کی محبت بھی بڑی عجیب ہے۔ فطرت کے رشتے ناطے بھی کرسی کے رشتے سے نیچے نیچے ہی نظر آتے ہیں۔سارا جگ سوہنا ہے کرسی توں تھلے ہی تھلے۔پاکستان کی حکومتی کرسی تو ایک خدائی امانت ہے۔ نفرتوں کے الاﺅں سے بڑی مشکل سے نکال کر اقتدار پاکستان نصیب ہوا تھا۔ قربانیوں کا بے حساب سلسلہ تھا جان، مال، عزت، حرمت سب کچھ داﺅ پر لگا تھا، سب ہر خطہ زمین آزادی کی پرنور ساعتوں سے آشنا ہوا تھا۔ غریب مفلوک الحال عوام الناس مذہب اور وطن کی محبت میں ہر کڑوے کسیلے حالات کو برداشت کرتے ہیں۔ لیکن آزادی کی نعمت پر شکر گزار ہوتے ہیں۔ غیرت دین پر مرتے ہیں۔ ایثار کرتے ہیں۔ لیکن قومی غیرت کا سودا نہیں کرتے۔ کسی نے بھی غیرت دین و وطن کے نام پر آواز دی یہ بے چارے پھر سے سوئے مقتل ہتھیلی پر جان کا نذرانہ لئے دیوانہ وار دوڑتے ہیں اور وطن دوستی میں راہبروں کی آواز پر رہزنوں کے ہتھے چڑھنا اور دھوکہ کھانا ان کا مقدر قرار پاتا ہے۔پاکستان کا قیام، بہرحال بہرحال ایک مذہبی جداگانہ تصور کا نتیجہ تھا۔ قائد اعظم بہت بڑے سیاسی اور سماجی تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کی ایک علیحدہ آزاد اور خودمختار ریاست درکار ہے۔ اس وقت نظریاتی، سیاسی مخالفین نے قائد اعظم کی بات کو بری طرح سے ناکام کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر سینکڑوں برسوں کے حالات سے پیدا شدہ نتائج نے قائد اعظم کے نظریے کو پوری طرح سے درست ثابت کر دیا۔بدقسمتی اس قوم کی یہ رہی ہے کچھ بدنیت اور کچھ بدکردار لوگوں نے قیادت کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کی نظریاتی سالمیت کو نقصان پہنچانے کیلئے اپنی کارروائیاں مختلف اوقات میں مختلف سیاسی محاذوں سے جاری رکھیں۔ ان قیادت کے مدعیان نے پاکستان کے دگرگوں معاشی حالات یا سیاسی بحرانوں کا سہارا لیکر پاکستان کی حقیقت کو جھٹلانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
پاکستان دشمن سیاسی قائدین نے اکثر لبادہ بدل کر مسلم لیگ کے حلیف بن کر وطن کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا عزم مکروہ جاری رکھا۔جمہوری ادوار میں بہت سی حکومتیں مختلف صوبوں میں ایسی جماعتوں کی مدد سے قائم ہوئیں۔ جن جماعتوں نے قیام پاکستان کی شدید ترین مخالفت کی تھی اور بعد میں بھی مختلف مواقع پر پاکستان اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ پر ناگوار تنقید کا سلسلہ جاری رکھا۔ کبھی کبھی وہ لوگ طاقتی نشے میں چور یہ بھی پکار اٹھتے تھے کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ کتنا ہی بھونڈا اور رکیک انداز ہوتا ہے جب کوئی سیاسی آڑھتی یہ بیان دیتا ہے کہ ہم تو تقسیم ہند کے شروع ہی سے خلاف تھے۔خیر یہ تو ایک انداز سیاست شمار کیا جاتا ہے لیکن وہ لوگ جو قائد اعظم کی سیاسی میراث مسلم لیگ پر پوری طرح سے قابض ہیں وہ بھی اسے بیانات پر کبھی بھی توجہ نہیں دیتے۔ ایسے بیان دینے والوں کو اپنے حلیف بنا کر پاکستان کے وسائل سے ان کو فیضیاب کرتے ہیں۔قومی اخبارات میں مختلف اہل دانش نے حکومت کے حلیف سیاستدانوں کے ان بیانات کی شدید مذمت کی ہے۔ جس میں انہوں نے بالواسطہ پاکستان کی توہین کی تھی۔یہ صورتحال شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ملک میں معاشی عدم استواری اور معاشرتی بدامنی نے عوام کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں اور حکومت کی خودغرضانہ اور خود پرستانہ انداز حکومت نے ملک و قوم کے مستقبل کو بہت ہی تاریک کر دیا ہے۔ عوام اس پر صبر کرتے ہیں پھر بھی وطن کی عزت کو مقدم رکھتے ہیں وطن کی محبت ان کے رگ و پے میں نہایت قیمتی شے شمار کی جاتی ہے۔ وہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں۔ لیکن وطن کے بے وفاﺅں اور غداروں سے تعلق ان کے نزدیک آزادی کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کے برابر ہے۔ان کا نظریہ قبل از قیام پاکستان سے اب بھی قطعی طور پر مختلف نہیں وہ اب بھی اساس پاکستان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہہی سمجھتے ہیں وہ خدائی ہدایت کی بنیادوں پر انسانی برادری میں انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا بھرپور اعتقاد رکھتے ہیں۔ لیکن وہ کبھی بھی ایسی محبت اور الفت کی رسی اپنے گلے میں ڈالنے سے گریز کرتے ہیں جس میں
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی
سارے ہیں یہ بھائی بھائی
ہمارے وزیراعظم اقتدار کی جس مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہیں ان کی نظر میں ان کی گرفت اور رسی تک رسائی مستقل ہی رہے گی اور وہ اس خودخیالی کو اپنی ذات پر طاری رکھتے ہیں ان کے نزدیک نظریہ پاکستان کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کسی بھی جزوقتی بے فکر سیاستدان کو ہو سکتی ہے۔ وہ کس بھی حلیف کو ناراض نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے حلیف ان کی ہر ٹیڑھی سیدھی سیاسی لکیر کو ملک کی قسمت کی لکیر کہہ کر اپنے بزرگوں کے انداز سیاست کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں کسی بھی صاحب ایمان کیلئے سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے لیکن پیشہ ور سیاسی کھلاڑیوں کیلئے سیاست تجارت اور وقت کنی کا دلچسپ دھندا بھی ہے۔ کٹاس کے راج مندر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ”مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی ہم سب ایک ہیں، کیا اس حقیقت کی غمازی نہیں کرتا ہم پاکستانی نظریہ قومیت کی تذلیل ہے اور قوم کے ساتھ کس درجے کا انتقام ہے یہ ایک غیر محتاط بیان ہے ۔مسلم لیگ کے راہبر کو ایسے بیان دینے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ نظریاتی اساس کی حفاظت نہایت مشکل ہو جائے گی۔