حال ہی میں سعودی عرب کی طرف سے ایک اسلامی ملٹری اتحاد کے قیام پر تصور نیا مسلمان ممالک کے وسیع تر سیاسی، اقتصادی اور دفاعی اتحاد کی تجویز ایک ایسا تصور ہے جس کے بارے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے OIC میں اس تنظیم کی سربراہی Summitپر باضابطہ سنجیدہ طور پر غور و خوض ہوتا رہا ہے۔ 1st ورلڈ وار کے بعد اسلامی دنیا جس طرح ٹوٹ پھونٹ کی گئی وہ سب پر ظاہر ہے۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے صلح نامہ میں مسلم ممالک کو دوبارہ نہ صرف مزید ٹکڑوں میں بانٹا گیا بلکہ ایک نئے یہودی ملک اسرائیل کے قیام سے ایک ایسے ناسور کو جنم دیا گیاجس کے نتیجہ میں قبلہ اول بیت المقد س کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔ چنانچہ اس زہر کے متواتر پھیلاو¿ کے نتیجہ میں مسلم دنیا میں مختلف سطح پر اتحاد کی کئی تجویزیں ریکارڈ پر ہیں۔ جب عیسائی دنیا میں باہمی اتحاد کو مختلف شکلوں میںدنیا میں امن کو فروغ دینے کیلئے بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ اور یورپ میں نیٹو کی سطح پر آ گے بڑھایا گیا تو قدرتی ردعمل کے طو ر پر اسلامی اتحا د کو بااثر اور مضبوط بنانے کیلئے عر ب لیگ کے علاوہ OICکی تنظیم بھی وجود میں آئی لیکن کئی وجوہات کی بنا پر مسلم قیادت میں فکری اتحا د اور اعلیٰ درجے کی قیادت کالعدم ہونے کے باعث اسلامی دنیا مختلف طوفانوں کی یلغار سے باہر نہ نکل سکی۔ جس کا نتیجہ قارئین کے سامنے ہے۔اس پس منظر میں اسلامی دنیا کے بعض ممالک جن میں عراق ، قطر، ایران ، سعودی عرب ، یمن اور یہاں تک کہ ترکی اور وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی اس طو فان سے نہ بچ سکیں اور شمالی افریقہ میں تمام تاج و تخت خاک میں گرا دئیے گئے اس مو قع پر دہشت گردی کی ایک انتہائی خوفنا ک لہر نے پورے مشرق وسطیٰ جس میں عر ب اور غیر عر ب ممالک شامل ہیں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے نپٹنے کیلئے اقوام متحدہ کے علاوہ نیٹو اور دیگر ممالک حرکت میں آئے۔ پاکستان اور افغانستان دہشتگردی سے اس طوفان سے بُری طرح متاثر ہوئے۔ سعودی عرب، یمن، ایران، شام، عرا ق اور دیگر کئی ریاستیں آج بھی اس جنگ کے شعلوں سے جھلس رہے ہیں۔ چنانچہ ماضی کی ناکامیوں سے مایوس نہ ہوتے ہوئے اسلامی ممالک کی ایک کثیر تعداد یعنی 39ممالک نے اس خوفنا ک صورتحال سے نجا ت حاصل کر نے کیلئے مل کر ایک اور بڑا تاریخ ساز قدم اُٹھایا ہے یعنی ان تمام ممالک کی متفقہ ابتدائی کوششوں اور تائید و باہمی اتفاق رائے سے ایک ملٹری اتحا د قائم کرنے کے ابتدائی اقدامات اُٹھائے ہیں کیونکہ کنگڈم آف سعودی عربیہ میں اس سلسلہ میں سب سے زیادہ کا وشیں کی ہیںاور فنڈ و وسائل مہیا کرنے کے علاوہ ایک مرکزی سیکرٹریٹ قائم کر نے کی بھی پیشکش کی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ بعض مخالف عناصر جن میں سعودی قیادت کے خلاف مملکتیں اور اُنکے دیگر ہمدرد اور سہولت کار بھی شامل ہیں وہ ہر طریقے سے اس اسلامی ملٹری اتحاد کے قیا م میں ابتدائی سطح یعنی پلاننگ کے سٹیج سے ہی اس تصور کے خلاف مخالفت کی کمر کس کر سو طرح کی منفی سو چ کو آگے بڑھاتے ہوئے اسکے خلا ف صف آراءہو گئیں ہیں چنانچہ ابھی جبکہ اتحاد میں شامل 39 ممالک کی افواج کے بارے میں بعض بنیادی باتیں یعنی کونسا ملک کس قدر فو ج مہیا کر یگا۔ اور اسکی آپریشنل لا جسٹک اور ایڈمنسٹرڈو ضروریا ت پوری کر نے کیلئے ہر ملک کتنا حصہ ڈالے گا اس سے پہلے ہی اس فورس کے کمانڈر کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے جس کی بحث کی بازگشت چند دنوں سے اخبارات اور میڈیا پر صاف ظاہر ہوتی ہیں کہ فورس کمانڈر کے نام کا تو صرف ایک بہانہ ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت نہ گوار گزری ہے
ہر ممبر ملک قدرتی طور پر چاہے گا کہ اس تاریخی فورس جو اپنی نو عیت کی تاریخ میں پہلی ملٹری الائنس ہو گی اس کی کمانڈ ایک عالمی شہرت اور ایسے فوجی اعزاز کی حامل ہو گی جس کو حاصل کرنا ہر ممبر ملک کی خواہش ہو گی لیکن ابتدائی سطح پر صر ف ایک ہی نام سامنے آیا ہے اور اُس پر بھی قبل ازوقت ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے جو کم از کم میرے فہم و شعور سے بالا ہے۔جنرل راحیل شریف اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد عمرہ کیلئے سعودی عر ب تشریف لے گئے تھے جہاں سے وہ وطن واپس پہنچ چکے ہیں اس دوران اُنہوں نے اسلامک ملٹری الائنس کے بارے میں اپنی زبان سے ایک لفظ تک نہیں بولا۔ حکومت پاکستان بھی اس بارے میں خاموش ہے اس اتحاد کے 39 ممالک نے بھی اس فوجی اتحاد کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے لیکن میں یہ پڑھ کر حیران رہ گیا ہوں کہ بعض مبصرین نے تجزیہ کیا ہے کہ اگر سعودی عر ب نے کوئی اسلامک ملٹری الائنس قائم کر لیا تو اسکے مقابلہ میں کل اگر ایران نے بھی ایسا ہی الائنس قائم کر لیا تو یہ امر مسلم امہ کے اتحاد میں تفرقہ اور نفاق پیدا کر نے کا باعث ہو سکتا ہے۔ ایک محترم وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے ابھی تک اس بیرونی ملک ملازمت کیلئے حکومت پاکستان کو NOCکی کوئی باضابطہ درخواست نہیں دی ایک اور صاحب نے فرمایا ہے کہ جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی ملازمت کرنے کیلئے مقررہ مدت ختم نہیں ہوئی۔ سعودی عر ب نے تو 39ممبر ممالک کی قیام کیلئے اصلاح مشورے کے بعد سیاسی و فوجی تمام قیادتوں سے اس اتحاد کے قیام کی منظوری لے لی ہے اور یہی طریقے اس اتحاد کے فوجی کمانڈر کی Appointmentکیلئے عمل میں آئےگا کچھ ایسا ہی طریقہ کار نیٹو کے قیام کچھ ایسا ہی طریقے کار نیٹو کے قیام کیلئے بھی اختیار کیا گیا تھا موجودہ اسلامی اتحاد کو بھی بعض اخباری اور سو شل میڈیا نے ”مسلم نیٹو کا نام لیکر کوئی غلط بات نہیں کی ۔باقی رہ گیا کنگڈم آف سعودی عریبہ کا اس معاملے میں Initiative لے کر 39ممالک کی رضا مندی حاصل کرنا ایک بہت بڑی عالمی سطح کی کامیابی ہے ۔ جس کیلئے OICکو کنگڈم کا شکر گزار ہونا چاہیے۔وحدتِ فکر اور عملی سطح پر اتحا د اسلامک دنیا کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا کو اندرونی و بیرونی سکیورٹی کے چیلنجز سے عہدہ برا¿ ہونا ہے۔ یہی ہماری موجودہ مشکلا ت کا واحد حل ہے۔
”مسلم نیٹو“ کے سربراہ کا ”گورکھ دھندہ“
Jan 13, 2017