اسلام آباد (صباح نیوز) سپریم کورٹ کے جج جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون ہے کہ اگر بڑے افسر کا ماتحت افسر جرم یا بدعنوانی کرے گا تو بڑا افسر بھی اس کا ذمہ دار ہو گا۔ انہوں نے یہ ریمارکس اڈیالہ جیل میں تعینات لیڈی پولیس کانسٹیبل روبینہ نذیر کو نوکری سے ہٹائے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران دیئے۔ روبینہ نذیر پر الزام تھا کہ اس نے لیڈی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل صتوت شاہین کے ماتحت اڈیالہ جیل میں کام کرتے ہوئے جیل میں قید ماں اور دو بیٹیوں سے 70 ہزار روپے رشوت لی تھی۔ اس معاملے میں روبینہ نذیر کا خاوند اصغر علی بھی رشوت لینے میں شامل تھا۔ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا آئین کے آرٹیکل 10 میں فیئر ٹرائل کا طریقہ کار بالکل واضح کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں لگتا ہے کہ انکوائری درست انداز میں نہیں کی گئی۔ ماتحت اہلکار کو سزا دیدی گئی جبکہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔ معاملے کو بڑھائیں گے تو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بھی جیل جائے گی کیونکہ عالمی قانون ہے کہ اگر بڑے افسر کا ماتحت کوئی جرم کرتا ہے تو بڑا افسر بھی ذمہ دار ہو گا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا اس معاملے میں دو انکوائریاں کی گئیں دونوں میں روبینہ کو مجرم قرار دیا گیا۔ عدالت نے درخواست گزار روبینہ نذیر کو ہدایت کی کہ وہ اپنے شوہر کو انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش کرے اور انکوائری کمیٹی دو ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے۔