امامِ کائنات، احمد ِمجتبیٰ، آقائے دوجہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور مبارک کے وقت مدینتہ الرسولؐ میں ایک لڑکی کو جو زیورات سے سجی ہوئی طائف سے آرہی تھی راستے میں ایک یہودی نے اُس سے زیورات چھین کر پتھر مار کر اُس کا سر کچل دیا، ابھی اُس میں زندگی کی رَمق باقی تھی کہ اُسے محمد رسول اللہﷺ کے دربار میں لایا گیا، حضرت اَنسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں، جسے صحیح بخاری میں نقل کیا گیا ہے کہ صحابہؓ کو بلا کر نبی رحمتؐ نے اُس علاقے کے نوجوانوں کو اکٹھا کرنے کو کہا جہاں اُس لڑکی کے ساتھ واقعہ پیش آیا، تین چار نوجوان اُس کے سامنے لائے گئے تو ایک نوجوان کو دیکھتے ہی اُس لڑکی نے اُسے سر کی جنبش دی کہ یہی ظالم ہے جس نے میرے ساتھ یہ بدترین سلوک کیا ہے، نبی معظم و محترمؐ نے اُسی وقت صحابہؓ کو حکم دیا کہ اس بدبخت کو لے جائو جس طرح اس لڑکی کے ساتھ اس نے سلوک کیا ہے اُسی طرح ایک پتھر اس کے سر کے نیچے رکھو اور ایک اِس کے سر کے اوپرمار کر اس کے سر کو کچل دو، صحابہؓ نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور اس قاتل کو جہنم رسید کردیا، اس واقعہ کے بعد تاریخ شاہد ہے کہ عرب دنیا میں عرصہ دراز تک اِس قسم کا واقعہ دوبارہ رُونما نہیں ہوا۔ ۔۔۔ سورۃ المائدہ میں ربِّ کائنات نے فرمایا ہے کہ ’ جان کا بدلہ جان ہے اور آنکھ کا بدلہ آنکھ، ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان، دانت کا بدلہ دانت اور زخموں میں قصاص ہے، اگر کوئی معاف کر دے تو اُس کی جانب سے کفارہ ہو جائے گا اور جو کوئی اللہ کے نازل کیے ہوئے احکامات کے موافق فیصلہ نہ کرے تو وہ ظالم ہیں‘۔
افسوس آج ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں مگر حدود اللہ کا نفاذ کرنے کیلئے یہودیوں، عیسائیوں اور غیر مسلموں کی طرف دیکھتے ہیں، ان کی تنقید پر ہم حدود اللہ کے نفاذ سے گھبراتے ہیں، ہماری اخلاقی اور معاشرتی ناہمواری ہی ہماری پستی کا سبب بن چکی ہے، اللہ ربّ العزت اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکامات سے رو گردانی آج ہماری تباہی کا سبب بن چکی ہے، ایک واقعہ ہونے کے بعد چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے، معاملہ ٹھنڈاہونے پر پھر وہی روایتی خاموشی، مجرمانہ غفلت ہم پر طاری ہو جاتی ہے اور ہم اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں، ہماری سیاسی حکمت ِعملی آڑے آتی ہے، جب قانون موم کی ناک بن جائے، بڑے بڑے سیاستدان، بااثر شخص، وڈیرے، جاگیر دار کیلئے قانون اور ہو اور غریب کیلئے اور تو ایسی مثالیں تو ہر روز ملیں گی۔ قصور کی معصوم زینب کے واقعہ نے ایک بار پھر پوری قوم کو رلا دیا، مگر یہ کب تک ہوتا رہے گا اور ہم بے بسی کی تصویر بنے رہیں گے، صرف قصور میں ہی یہ بارہواں واقعہ بتایا جارہا ہے، قصور واقعہ رپورٹ ہونے کے ساتھ ہی فیصل آباد، پتوکی، سرگودھا، راولپنڈی اور بہاولپور میں بھی ایسے ہی واقعات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ان ننھے معصوم بچوں کی دلدوز چیخیں تو عرشِ معلی کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے، ہم کیوں بے حس اور پتھر دل ہو گئے ہیں؟ ہم کیوں ایک واقعہ کے بعد دوسرے کا انتظار کرتے ہیں، یہ تو حکمرانوں کی حکمرانی کو کھلا چیلنج ہے، مگر افسوس صد افسوس ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے کی گندی سیاست سے فرصت نہیں، کچھ لوگ تو معصوم بچوں کی لاشوں پر بھی سیاست سے گریز نہیں کرتے جو ہماری اخلاقی پستی کی بدترین مثال ہے۔ مدینتہ الرسولؐکی ریات کے قیام کے بعد جب جب حدود اللہ کا نفاذ ہواتو پھر وہی بد ترین معاشرہ دنیا کا بہترین معاشرہ ثابت ہوجس کی مثالیں پندرہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج بھی دی جاتی ہیں۔ جب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے تم اللہ کے احکامات کی پابندی نہیں کرو گے تو تباہی اور بربادی مقدر بن جائے گی۔ حال ہی میں قصور کے واقعے سے جو انارکی پھیلی ہے، ملک بھر میں جگہ جگہ احتجاج ، توڑ پھوڑ، گھیرائو جلائو، کئی جانیں اس اندوہناک حادثے کی نذر ہوئیں، آج بھی واپس اپنے دین کی طرف پلٹ آئو، قصور کا کوئی چوک منتخب کرو، تمام عوام کو اکٹھا کرو، سارا میڈیا کیمروں سمیت بلائو اور سارے شہر کے سامنے عبرت کا نشان بنادو اُس ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے والے کو، اگلے سو سال تک کسی کو ایسا ظلم کرنے کی جرأت نہیں ہوگی، لیکن اگر اسلامی سزائیں بری لگتی ہیں تو اپنی اپنی زینب کی لاش اٹھانے کیلئے تیار رہو اور جمہوریت زندہ بات، حقوق زندہ باد، روشن خیالی زندہ باد، فلاں زندہ باد، فلاں مردہ باد کے نعرے لگاتے رہو۔ آج اپنے معاشرے کو بچانے کیلئے اپنی زینت جیسی ننھی پریوں کو بچانے کیلئے حدود اللہ کے نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔
میں سعودی عرب، ایران کی بات نہیں کرتا، 1981ء میں لاہور باغبانپورہ تھانہ کی حدود میں پپو نامی بچہ اغوا ہوا تھا، بعد میں اُس کی نعش ریلوے کے تالاب سے ملی تھی، جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا، قاتل گرفتار ہوئے، ٹکٹکی پر لٹکانے کا حکم فوجی عدالت سے جاری ہوا، تین دن بعد ٹکٹکی وہاں لگی جہاں آج کل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے، پورے لاہور نے دیکھا پھانسی کیسے لگتی ہے، چاروں اغواء کار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے، اس کے بعد 10 سال تک کوئی بچہ اغواء اور قتل نہیں ہوا، پھر جمہوریت بحال ہوئی اور بااثر وڈیروں اور اشرافیہ نے قانون کو اپنے پائوں کی جوتی بنا کر رکھ دیا۔ آج پورا ملک سراپا احتجاج ہے، دل خون کے آنسو رو رہا ہے مگر شاید ہم اگلے واقعے کا انتظارکر رہے ہیں، خدا کرے ایسا واقعہ کسی کو بھی دیکھنے کو نہ ملے مگر اس کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے، آج مجھے ساحر لدھیانوی یاد آرہا ہے جس نے مشرق کے تقدس کے ثناخوانوں کو جھنجھوڑا تھا۔
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبرؐ کی اُمت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاںہیں؟
ذرا ملک کے رہبروںکو بلائو
یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھائو
ثنا خوان تقدیس مشرق کو لائو
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاںہیں؟