پاکستان کی مشرقی سرحدوں کے پار بھارت کا بحیثیت پڑوسی ملک ہونا 20 کروڑ پاکستانی قوم کے لئے ہمہ وقت کئی نوع کے سنگین خطرات کے اندیشوں اور بہت ہی مہلک وسوسوں اور خدشوں کا تقسیم ہند کے بعد سے اب تک باعث تکلیف بنا ہوا ہے'نئی دہلی کے مرکزی اقتدارمیں کسی پارٹی کی بھی حکومت رہی ہو'پاکستان کے اندرونی وبیرونی امن وامان کوہمہ وقت'را' کی دہشت گردی کے ممکنہ چیلنجز کا سامنا ہی رہا' بھارتی اعلیٰ انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف ہمیشہ اپناجارحانہ رویہ اختیار کئے رکھا'پاکستانی سکیورٹی اداروں نے بھارت کے ریاستی سطح پر اختیارکردہ ایسے ہربہیمانہ وجارحانہ قابل مذمت سرگرمیوں کا بڑی جرات مندی اورمردانگی کے ساتھ ماضی میں بھی مقابلہ کیا اور آج بھی ہماری حساس سکیورٹی فورسز اپنے فرائض میں چوکس و چوکنا ہیں، چاہے بھارت کیساتھ باقاعدہ جنگ کازمانہ رہا ہویا پھرسرد جنگ یعنی پاکستان کے سرحدی مقامات سے اپنے تربیت ِیافتہ ایجنٹوں کو پاکستان میں بھیجنے جیسے انتہائی غیراخلاقی بین الااقوامی اصولوں کے خلاف چانکیائی دھوکہ دہی کے بھارتی منصوبے ہوں، بھارت نے کبھی اِیسے ’آلارمنگ معاملات ‘کی حساسیت کو اور اُن کے نتائج کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی مثلاً تازہ ترین کلبھوشن یادیوکا مسئلہ پوری دنیا کے سامنے بطور مثال موجود ہے، بھارتی نیوی کے حاضر سروس ایک افسر کو ’را‘ نے جاسوس کے بھیس میں پاکستان بھیج دیا، یہی بھارتی نیوی کا حاضر سروس ایجنٹ ایرانی سرحد عبور کرکے بلوچستان میں آتا اور جاتا رہا جس نے کراچی میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کر لیا، کراچی میں 1992کے زمانے میں بڑی خونریز انارکی پھیلائی گئی، ہزاروں پاکستانیوں کو ٹارگٹ کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا، کلبھوشن کے قائم کردہ جاسوسی کے نیٹ ورک کے ذریعے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی 'را' نے اپنے خفیہ حربوں اور مذموم ہتھکنڈوں کو کراچی اور بلوچستان میں بڑی بیدردی کے ساتھ استعمال کیا، بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک بار نہیں بلکہ بارہا ہزارہ کیمونٹی کے شیعہ مسلمانوں کو کبھی اجتماعی پیمانے پر قتل کیا اُن کے علاقوںمیں بم دھماکے کئے گئے، بلوچستان کے راستہ زیارات پر ایران جانے والے شیعوں کی بسوں کو بم دھماکوں سے اُڑایا گیا، یقیناً یہ کام کسی اور کا نہیں کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کا ہی تھا جسے لگاتار اور جان توڑ ’ریکی‘ کے بعد ملکی سکیورٹی اداروں کے بہادر اور جواںمرد افسروں اور جوانوں نے گزشتہ برس ایران کی سرحد سے پاکستانی علاقہ بلوچستان میں داخل ہوتے ہوئے موقع پرہی دھر لیا تھا۔ پہلے تو بھارت نے اِس کی گرفتاری کے وقت انکار کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ کلبھوشن کا بھارت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے جبکہ دنیا آج دیکھ رہی ہے کہ بھارت کے جاسوس کلبھوشن یادیو کو ایک غیرملکی فوجی ہونے کے ناطے کورٹ مارشل کے بعد اُسے سزائے ِموت دی گئی، اب دنیا دیکھے اور انصاف کرے اور یہ تسلیم کرئے کہ ’را‘ نے بین الااقوامی سفارتی حدود کی دھجیاں بکھیرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، کلبھوشن یادیو کودی گئی سزائے موت کو رکوانے کے خلاف عالمی عدالت ِانصاف میں جاکر بھارت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ تو بین الااقوامی قانون و اصولوں کو مانتا ہے نہ ہی اپنے پڑوسی ملکوں کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے۔ بھارت کا یہ نہایت ہی گھٹیا اورلائق نفریں ٹریک ریکارڈ ہے۔
گزشتہ دِنوں پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے کی طرف سے ایک اور بھارتی جاسوس 'محمد شبیر' جسے پاکستان کی میرپور آزاد کشمیر کی عدالت سے پاکستان کے شہروں میں کیئے گئے کئی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے ثبوتوں کے بعد اُسے عبرتناک سزائیں سنائی گئی ہیں۔ یہ بھارتی ایجنٹ بھی آجکل ملکی آئین کے مطابق پاکستانی جیل میں اپنی سزائے موت کا منتظر ہے انڈین سفارت خانے نے محمد شبیر تک بھی اب’قونصلر رسائی‘ حاصل کرنے کے لئے ایک درخواست دی ہے، مقبوضہ کشمیر ڈسٹرکٹ پونچھ کا مستقلاً رہائشی محمد شبیر1987 میں پاکستانی کشمیرمیں جاسوسی کرنے، دہشت گردی کرنے جیسی کارروائیاں کرنے کی غرض سے داخل ہوا تھا جس نے دوران تفتیش اپنے سنگین جرائم کے اعترافات کئے، جن میں 17 دسمبر 1999 کواْس نے 'را' کی ہدایت پراسلام گڑھ میں ایک بس میں بم دھماکہ کیا تھا جس میں 9 سے زائد افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے، 20 سے زائد پاکستانی شدید زخمی ہوئے تھے، بھارتی جاسوس محمد شبیر کو پاکستانی دفعات324۔ 302/427کے تحت سزائے موت سنائی گئی ہے جس نے اپنی سزائے موت پر نظرثانی کی اپیل میرپور آزادکشمیر کی سپریم کورٹ برانچ میںکی ہے۔ یہ درخواست2015 سے زیر التواء ہے پاکستان کے کروڑوں عوام منتظر ہیں کہ حکومت پاکستان بھارتی سفارت خانے کی محمد شبیرنامی بھارتی جاسوس تک ’قونصلر رسائی‘ دینے کی درخواست پر جلد ازجلد فیصلہ کرتے ہوئے بھارت کو دوٹوک جواب کیوں نہیں دیتی چونکہ جاسوسوں کو دنیا میں کہیں بھی ’قونصلر رسائی‘ نہیںدی جاتی ہے، یہ معصوم انسانوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں، اُنہیں بم دھماکوں سے اُڑاتے ہیں وہ عبرت ناک سزاؤں کے عین مستحق ہیں۔ ملکی عوام اپنے دشمن ملک بھارت کے جاسوسوں کو چاہے وہ کسی ملک کے جاسوس ہوں اُنہیں عبرت کا نشان بنانے میں کوئی رُورعایت کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟ بھارتی جاسوس محمد شبیر نے90 کی دہائی میں کئی درجن پاکستانیوںکو اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں میں موت کے گھاٹ اتارا، اُن شہدا اور بے گناہ مقتولین کے وارث آج تک اپنے پیاروں کے لئے انصاف کا انتظار کررہے ہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اُن شہداء کے لواحقین کی منشاء جانے بغیر مقبوضہ جموں وکشمیر کے رہائشی محمد شبیر جیسے ’را‘ کے پے رول پر پاکستانی مسلمانوں کے قاتلوں کو سہولتیں ملتی رہیں؟ہماری وفاقی حکومت کو اِس بارے میں ’مصلحتوں کی سفارتی ڈپلومیسی‘ سے اب ہر قیمت پر پرہیز کرنا ہوگا، بھارت سے اب بھارت کی زبان میں حتمی بات کرنی ہوگی، پاکستان عالمی سطح پر ایک آزاد وخود مختار ذمہ دار ایٹمی ڈیٹرنس سے لیس اسلامی ملک ہے پاکستان کے اندرونی امن وامان اور پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کے پار ملکوں (بھارت اور افغانستان) کو سٹرٹیجک حالات کی سنگینی پر علاقائی امن واستحکام میں امریکا سمیت کسی بھی مغربی طاقت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اب خود فیصلے کرنے ہونگے ورنہ آنے والا وقت مزید ایسی ’سرد جنگوں‘ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔