قلم کے ساتھ دوستی کا رشتہ بہت عجیب ہے ۔ کبھی خالی صفحوں پر الفاظ بکھیرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور کبھی جوں جوں الفاظ بکھرتے جاتے ہیں دل کا بوجھ بھی بڑھتا جاتا ہے اور آج قلم ہاتھ میں تھامے دل اس قدر افسردہ ہے کہ لفظ یوں لگتا ہے کہیں کھو سے گئے ہیں ۔ آج مجھے اپنے آپ کو اس مہذ ب اور اسلامی معاشرے کا شہری کہتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے جہاں انسانوں کے روپ میں حیوانیت اور درندگی کا راج نظر آتا ہے ۔ جہاں زینب اور اور اس جیسی نجانے کتنی ننھی پریاں شیطانیت کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور ہم سب بے بس اور لاچار نظروں سے صرف ملامت کرتے ہیں ۔ میڈیا پہ کچھ دن ان کا ان کے خاندان کا چرچا ہوتا ہے اور پھر بھلا دیا جاتا ہے لیکن مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے اور ان واقعات کے سد باب کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی ۔
قصور میں حال ہی میںپیش آنے والا درد ناک واقعہ ایک سات سالہ بچی زینب امین کا ہے جو آج سے ایک ہفتہ قبل اپنے گھر سے سیپارہ پڑھنے نکلی اور درندوں کے وحشی پن کا شکار ہو گئی چار دن بعد اسکی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی ، اس ننھی کلی کے والدین عمرے کی سعادت حاصل کرنے گئے تھے انہیں کیا پتا تھا کہ واپسی پہ ایک قیامت انکی منتظر ہو گی دل اس اذیت کو سوچ کر ہی خوف سے کانپ جاتا ہے جو اس معصوم نے سہی ہو گی کیا اس لمحے عرش نہ ہلا ہو گا زمین نہ کانپی ہو گی ۔ دکھ کا مقام تو یہ ہے کہ درندگی کی بھینٹ چڑھنے والی زینب اکیلی ہوس پرستی کا شکار ہو کہ زندگی کی بازی نہیں ہاری بلکہ اس سے قبل اسی علاقے کی گیارہ اور معصوم کلیاں بھی مرجھائیں لیکن مجال ہے کہ حکومتی ایوانوں میں اس ظلم پہ کوئی آواز سنائی دی گئی ہوں ،
زینب کے ساتھ پیش آ نیوالے زیادتی اور پھر قتل کے واقعے نے جہاں ہر صاحب دل اور عقل و فہم رکھنے والے شخص کو ہلا کے رکھ دیا ہے وہیں ہمارے معاشرے اور ہمارے رویوں پر بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں فرشتوں جیسی معصومیت لئے یہ ننھی کلیاں کس ناکردہ جرم کی پاداش میں روندی گئیں ؟ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں۔
2015ء میں قصور کے علاقے کے حوالے سے ہی ایک بچوں کا جنسی سکینڈل سامنے آیا تھا جس کے مطابق دو سو پچاسی بچے اس اذیت کا شکار ہوئے میڈیا پہ بہت واویلا ہوا ، بڑی بڑی باتیں اور دعوے کئے گئے اور اسکے بعد سب بھول گئے اگر اس وقت مجرموں کو چوراہوں پہ لٹکا کر پھانسیاں دی گئی ہوتیں تو آج جانے کتنی زینب اور ایمان فاطمہ اپنے گھروں میں محفوظ ہوتیں انکے پھول جسم کچرے دان یا کھیتوں سے نہ ملتے۔ ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بننے والی ننھی پری زینب کے ساتھ جو ظلم ہوا اسکے بعد سب سے پہلے ہماری پولیس اور پھر میڈیا سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کا رویہ افسوس ناک تھا ۔ زینب کے چچا نے بتایا کہ جب اس کی لاش ملی تو پولیس والے آ کے کہنے لگے کہ ہمیں دس ہزار روپے دو ہم نے لاش ڈھونڈ کے دی ہے ، اسکے بعد اس ظلم پہ احتجاج کرنیوالے نہتے لوگوں پہ گولیاں برسائی گئیں جس سے تین لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے ۔ دوسری طرف ہمارے میڈیا کے لوگ ۔ ایک رپورٹر بچی کی دس سالہ بہن سے پوچھنے لگا آپکی بہن کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ حد ہی ہو گئی ہے مجرموں نے تو ایک کم سن بچی کے ساتھ زیادتی کر کے اسے مار دیا دوسری طرف ہمارے میڈیا کے بعض حضرات نے پورے خاندان کے سر سے ہی چادر کھینچ لی ۔ زینب اور اس جیسی ننھی پریوں پہ بیتی دل دہلا دینے والی داستانیں ان معاشروں میں جنم لیتی ہیں جہاں کو ئی قانون ، کوئی انسانیت نام کی چیز نہ ہو ۔ لیکن ہمارے جیسا ملک جسے اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا میں ایسی داستانوں کا جنم لینا ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کی بڑی وجہ نا صرف دین سے دوری ہے بلکہ اسلام کے مطابق مجرموں کو سزائیں نا دینا بھی ہے جہاں مجرم ڈھٹائی سے جرم کرنے کے بعد دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے قانون ساز ادارے ایسے اسلامی قوانین سامنے لیکر آئیں جن میں مجرموں کے بچ نکلنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔
آج اگر زینب کے مجرموں کو سر عام پھانسی کی سزا دی جائے تو یقین کریں نجانے کتنی اور ننھی پریوں کا نہ صرف مستقبل بلکہ بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بھی محفوظ ہو جائیں گی تا ہم اس مسئلہ پر جذباتی ماحول گرمانے کی بجائے پورے سماجی اور اخلاقی نظام اور معمولات زندگی میں در آنیوالی خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت بھی ہے ، ہمارے آج کے معاشرے میں پاکیزگی کا فقدان ہے ، آوارگی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ایسے میں غیر اخلاقی تفریحی سرگرمیوں کو نکیل دیتے ہوئے ہمیں اپنی نئی نسل کو شرافت ، سنجیدگی ، شائستگی اور نیکی کے کاموں کی طرف مائل کرنے کی فضا ہموار کرنی ہو گی اور ان تمام عوامل کا سد باب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو انسانوں کو حیوانیت کی طرف لے جاتے ہیں تب ہی زینب جیسے واقعات کو روکنا ممکن ہے ۔ یہ واقعہ ہمارے پورے معاشرے کیلئے وہ بوجھ ہے جو بول لینے سے ، لکھ دینے سے ہلکا نہیں ہو گا ۔ زینب کو آج انصاف ملے گا تو کل ہماری بچیاں ، انکا مستقبل محفوظ ہوگا ۔