پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل نے گزشتہ دنوںاسلام آباد میں پاکستانی تاجروں و صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ امریکہ کو سی پیک منصوبوں میں جو اہمیت دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی جبکہ چین کو انتہائی خصوصی اہمیت دی جارہی ہے حالانکہ ہم سے بھی ان منصوبوں میں مشاورت لی جانی چاہئے تھی۔ اسی طرح کے شکوے کئی یورپی ممالک کے سفیروں کے بھی پاکستان سے ہیں۔ جناب سفیر صاحب کے خیالات پڑھ اور سن کر مجھے بے ساختہ مرزا غالب یاد آ گئے کہ ’’اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا‘‘۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ انکی بات پر میں کیا کہوں اس کو انکی سادگی و بھولا پن کہوں یا روایتی عیاری و مکاری کیونکہ گذشتہ ستر سالوں سے ان کے رویوں میں منافقت، عیاری اور پاکستان سے مخالفت قدر مشترک رہی ہے اب ان کے کے خیالات سن کر تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ امریکہ نے بھی ہندو فلسفہ "بغل میں چھری منہ میں رام رام "کا رنگ پوری طرح اپنے اوپر چڑھالیا ہے کیونکہ وہ ہر ایشو اور معاملے پر بھارت کی زبان استعمال کر رہا ہے کیونکہ ابھی تو سفیر صاحب کے اس معصومانہ شکوے کی سیاہی خشک بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ امریکی صدر نے تمام بین الاقوامی اخلاقی اور سفارتی معیارات کو پس پشت ڈال کر انتہائی بھونڈے انداز میں پاکستان کو جھوٹا اور مکار قرار دے دیا اور انکی وزارت خارجہ اور وائٹ ہائوس کے ترجمانوں نے صدر کی زبان کو مزید تقویت بخشی جو انکے وزراء ہمیشہ پاکستان کو دھونس و دھمکیوں سے دبائو ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اگر میں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ سیاسی تعلقات کے بجائے صرف معاشی و تجارتی تعلقات کا جائزہ لوں تو اس میں امریکہ کے متضاد رویوں اور منافقتوں پر ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر جناب ڈیوڈ ہیل کے شکوے کے جواب میں صرف چند امریکی’’مہربانیاں‘‘ انکی خدمت میں گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ جیساکہ تجارتی و معاشی تعلقات کو بڑھانے کیلئے سب سے ضروری عمل تاجروں کے آپس میں ایک دوسرے سے رابطوں کو بڑھانا ہوتا ہے مگر گذشتہ بیس سالوں سے پاکستانی تاجروں و صنعتکاروں کی تمام خواہشوں و درخواستوں کے باوجود امریکہ نے اپنے تاجروں وصنعتکاروں کو پاکستان کا سفر نہ کرنے کی ایڈوائس جاری کی ہوئی ہے اور پاکستان کے تاجروں اور صنعتکاروں کو امریکہ کے ویزے دینے کی پالیسی میں بھی دن بدن روکاوٹیں بڑھائی جارہی ہیں دوسری طرف ہماری تمام کوششوں وخواہشوں کے باوجود آج تک امریکہ نے اپنی تجارتی منڈیوں تک رسائی نہیں دی جس طرح وہ دیگر کئی ممالک کواپنی منڈیوں تک باآسانی رسائی بھی دی ہوئی ہے اور تجارتی سہولتیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو پاکستانی برآمدات میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس سینسس بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2000 میں پاکستان کی امریکہ کو برآمدات 2.2 ارب ڈالرز تھیں جبکہ اس وقت بھارت کی برآمدات امریکہ کو10.7ارب ڈالرزاور بنگلہ دیش کی 2.4 ارب ڈالرز تھیں پھر 2016 میں پاکستان کی امریکہ کو برآمدات 3.4 ارب ڈالرز رہیں اور بھارت کی برآمدات 46 ارب ڈالرزاور بنگلہ دیش کی 5.91 ارب ڈالرز رہیںاور اب 2017کے دس ماہ میں پاکستان کی امریکہ کو برآمدات 2.9 ارب ڈالرز رہی ہیں جبکہ اس دورانئے میں بھارت کی برآمدات 40.9 ارب ڈالرز اور بنگلہ دیش کی 4.9 ارب ڈالرز ہوچکی ہیں ۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے تقریباً سترہ سالو ں میں امریکہ کو پاکستان کی برآمدات میں بلحاظ حجم کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اسکے برعکس بھارت و بنگلہ دیش کی امریکہ کو برآمدات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
امریکی "مہربانیوں" کو مزید سمجھنے کیلئے ہمیں زیادہ دور نہیں جانا پڑیگا ابھی کچھ عرصے پہلے ہی پاکستان نے خالصتاً توانائی کے منصوبوں اور اپنی صنعتوں کیلئے بجلی وگیس میں خودکفالت کیلئے ایران سے گیس پائپ لائن منصوبہ بنایا تھا مگر جناب سفیر صاحب آپکے ہی پیشرو نے ہمارے ہی میڈیا پربیٹھ کر واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ہم پاکستان کو اس منصوبے پر عمل نہیں کرنے دینگے اور پھر ہوا بھی کچھ اس طرح کہ ہمارا یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوگیا ہے۔
اسکے علاوہ جب ہم نے پرامن مقاصد کیلئے فرانس سے ایٹمی پاور پلانٹ خریدنا چاہا جو صرف بجلی کی قلت دور کرنے کیلئے تھااور جو ہماری معیشت کی بہتری میں نمایاں کردار ادا کرسکتا تھا مگر آپکی ’’مہربانیوں‘‘ نے فرانس کو وہ بھی دینے سے روک دیا ۔ حالانکہ اگر امریکہ صحیح معنوں میں پاکستان کیساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے میں سنجیدہ ہوتا تو آج ہماری امریکہ سے تجارت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہوتا مگر آپکے ہاں بغیر کسی تفریق کے کسی بھی حکومتی ادوار میں چاہے جمی کارٹر ہوں، بش ہوں، بل کلنٹن ہوں، اوباما ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ ہوں سب نے اپنے تاجروں و صنعتکاروں کے ساتھ بھارت کے کئی کئی روزہ دورے کئے ہیں اور بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی حجم کو بڑھایا ہے مگر ان تمام صدور و حکومتی اراکین نے اپنے تاجروں وصنعتکاروں کے ساتھ بھارت آنے کے باوجود پڑوس میں پاکستان کا رخ نہ کیا یہی وجہ ہے کہ اب بھارت امریکہ کا نواں بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا ہے اور یہی پاکستان کو نظر انداز کرنے کی پالیسی آپکی منافقتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ آپکی تضاد بیانی اور منافقتوں کا پاکستان کے ارباب اختیار کے علاوہ پوری قوم اچھی طرح ادراک کر چکی ہے۔ حالانکہ پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کے بناء پر امریکہ کے چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں نہایت ہی اہم کردار اداکیا تھا۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم آج بھی یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ سے سیاسی اور معاشی تعلقات رکھیں اور بڑھائیں‘ مگر اگر آپ اس کیلئے سنجیدہ ہیں تو دوسرے ملکوں کی طرح ہمیں بھی اپنی تجارتی منڈیوں تک رسائی دیں اور اپنے تاجروں و صنعتکاروں کو پاکستان نہ جانے کی ایڈوائس کا سلسلہ بند کریں کیونکہ ہم نے تجارت وصنعت آپکے تاجروں وصنعتکاروں سے کرنی ہے نہ کہ آپکے سرکاری اہلکاروں و وزراء سے جو جب چاہیں پاکستان آکر ڈو مور کی دھمکی دے جاتے ہیں۔