بدقسمتی سے مرضی کے فیصلے ہورہے ہیں، عدلیہ پر دباؤ ہے، اصلاحات کیلئے پارلیمنٹر ینز سے بات پر چہ مگوئیاں نہیں ہونی چاہئیں: چیف جسٹس

Jan 13, 2018 | 21:12

ویب ڈیسک

 چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کراچی میں جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل چار کے تحت انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے لوگوں کی شکایت ہے کہ ان کو انصاف وقت پر میسر نہیں آتا انصاف وقت پر اور قانون کے مطابق کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ فیصلوں میں تاخیر کی ذمہ دار عدلیہ نہیں انصاف بک نہیں سکتا مجھے اور آپ کو کوئی معافی نہیں۔ قانون میں سقم کی وجہ سے کیسز میں تاخیر ہو رہی ہے۔ قانون میں اصلاحات کس نے لانی ہیں۔ پاریمنٹ سپریم ہے۔ قانون بنانا اس کا کام ہے۔ ہمیں قانون بنا دیں پھر ججز کوتاہی کریں تو ذمہ داری میری ہے۔ ججز کی دیانتداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ وہ انصاف مہیا کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہو من مرضی کا نہیں بدقسمتی سے آج کل جو فیصلے آ رہے ہیں وہ قانون کی بجائے من مرضی کے ہیں۔ بروقت انصاف کی فراہمی عدلیہ کی ذمہ داری ہے ایک سول جج اور سپریم کورٹ کے جج میں کوئی فرق نہیں ہوتا بدقسمتی سے ہماری جوڈیشنل فورم تنقید کی زد میں ہے جس کی ایک وجہ تاخیر ہے۔ تمام شہری قانون کی پاسداری کے پابند ہیں۔ انصاف کا حصول ہر شہری کا حق ہے۔ اختیارات شاید سپریم کورٹ کے جج کے پاس زیادہ ہوں ذمہ داری سب کی یکساں ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ قانون کو سیکھیں اور لاگو کریں۔ انصاف کی فراہمی میں سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ انصاف وقت پر نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں ہم اپنی ذمہ داری ادا کرنا نہیں چھوڑ سکتے۔ فیصلہ کئی ماہ تک محفوظ رکھنا اور دوبارہ سماعت نہیں کی جائے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں سماعت کے لیے کیس دوبارہ نہیں آنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج کے پاس روزانہ غالباً 150 مقدمات آتے ہیں۔ ایک جج کے کام کرنے کے اوقات صرف 6 گھنٹے ہیں۔ جج کے پاس ایک کیس کے لیے صرف چند منٹ ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھر کو منتظم کرنا ہے ہمیں تمام معاملات کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ اتنا بوجھ ڈال کر تاخیر کی ذمہ داری صرف جج پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ کیا انصاف کا ادارہ حق نہیں رکھتا کہ اس کو چیزیں فراہم کی جائیں جس سے سہولت پیدا ہو۔ قانون مجھے نہیں بنانا کسی اور کو بنانا ہے۔ مجھے قانون کی تشریح کرنی ہے۔ بے شمار قوانین ہیں جو متضاد ہیں جن ججز کے پاس کیسز التوا کا شکار ہیں انہیں جلد نمٹا دی۔ انصاف میں تاخیر بڑا مسئلہ ہے مگر اس کی مکمل ذمہ داری عدالتوں پر نہیں۔ افسران کو بلا بھی لیتے ہیں او رڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ قوانین میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹیرین سے بھی بات کرنے کا فیصلہ کیا اگر ہم کسی پارلیمنٹیرین سے مل لیں تو اس پر چہ مگوئیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ بداعتمادی کی فضا ختم ہونی چاہیے‘ ہرایک کو انصاف کیلئے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا‘ ہمیں اپنی ذمہ داری اٹھانی ہوگی اور یہ ہی حتمی ہے۔ ہائیکورٹ کے ججز 90روز میں کیس کا فیصلہ سنائیں۔میں 15دن کا وقت دے رہا ہوں‘ ہمیں اپنے گھر کو منظم کرنا ہے، ایسا نہ ہو کسی ایک کی کوتاہی عدلیہ کیلئے بدقسمتی کا داغ بن جائے۔ بڑے بھائی کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کوئی کیس ری ہیئرنگ میں نہ ڈالیں۔قبل ازیں غیر معیاری ڈبوں والے دودھ کی فروخت پر سماعت میں عدالت نے کراچی میں دستیاب دودھ کے ڈبے لیبارٹریز سے ٹیسٹ کرانے کا حکم دےدیاہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہاکہ ڈبوں میں فروخت ہونے والادودھ،دودھ نہیں فراڈ ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ڈبوں والے غیرمعیاری دودھ کی فروخت پر اہم سماعت ہوئی ۔ سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکوں پر پابندی عائد کی۔آج ہی پیکٹ والے دودھ کی پروڈکٹ اٹھائیں اورٹیسٹ کیلئے بھیجیں، پنجاب میں پیکٹ کے دودھ سے اب یوریا ، بال صفا پاڈر اور غیر معیاری اشیا کا خاتمہ ہوگیا ہے۔چیف جسٹس نے تمام نمونے پی سی ایس آئی آر بھیجنے کا حکم بھی دیدیا۔وی وی آئی پی موومنٹ کا معاملے پر سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے حلف نامہ طلب کرلیا۔آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا مستقل سڑکیں بلاک نہیں ہوتیں، صرف دو منٹ کے لیے ٹریفک بند کرتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا آپ انتظامات کریں شہریوں کوتکلیف نہ دیں۔نجی میڈیکل کالجزکے معیار اور بھاری فیسوں کے کیس میں چیف جسٹس نے نجی میڈیکل کالجز کو 6 لاکھ 45 ہزار سے زائد فیس وصول کرنے سے روک دیا اور نجی کالجز مالکان کو15 دن میں معاملات ٹھیک کرنے کی مہلت دے دی ہے۔ کراچی سپریم کورٹ رجسٹری میں نجی میڈیکل کالجز میں داخلوں کے معیار اور بھاری فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پی ایم ڈی سی کا کیا طریقہ کار ہے، پی ایم ڈی سی مزید کسی کالج کو رجسٹرڈنہیں کرے گا۔چیف جسٹس نے کہا اگر ذمہ داری ادا نہ کرسکے تو خود چلے جائیں گے، سپریم کورٹ کے پاس وسیع اختیارات ہیں،ڈرتے وہ ہیں جن کی کوئی کمزوریاں ہوں۔ ہم معیارطے کریں گے، جوداخلے ہوچکے انہیں منسوخ نہیں کیاجارہا، حکم دیتے ہیں مزیدکوئی داخلہ نہیں دیا جائے۔انہوں نے کہاکہ ہم اس پورے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں، نجی کالجزعدالت کادیاگیافارم بھرکرعدالت میں جمع کرائیں، بتائیں کیا سہولتیں دستیاب ہیں ، معیارپر پورا اترتے ہیں؟ کیا کمرہ عدالت میں سرکاری اسپتالوں کے ایم ایس موجود ہیں، جس پر سیکرٹری صحت سندھ فضل اللہ پیچوہو نے جواب دیا کہ بیشتر موجود ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بھی فارم دے رہے ہیں، مکمل تفصیلات جمع کرائیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہیومین رائٹس سیل سے تفصیلات لی جائیں۔قبل ازیں ججز سے خطاب میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم مقننہ نہیں کہ قانون سازی کر سکیں‘ قانون سازی اور اصلاحات قانون سازوں کا کام ہے۔ چیف جسٹس نے ججز سے خطاب کرتے ہوئے کہا لوگوں کو ملک میں سستا انصاف ملنا چاہئے۔ انصاف میں تاخیر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لوگوں کو شکایت ہے کہ جلد انصاف نہیں ملتا جبکہ دنیا بھر میں شکایات رہتی ہیں کہ مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے۔ اجلاس کا مقصد عدالتی اصلاحات کی مہم کو تیز کرنا ہے۔ مقدمات تیزی سے نمٹانے کا براہ راست فائدہ سائلین کو ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ مجھے سب سے اچھا کام پنجاب میں نظر آتا ہے وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ پنجاب میں ماڈل کورٹس بنائی گئی ہیں۔ ہم مقننہ نہیں کہ قانون سازی کر سکیں۔ قانون سازی اور اصلاحات قانون سازوں کا کام ہے۔ عدالت میں جانے کے ڈر سے بہت سے لوگ مسئلہ خود حل کرتے ہیں لیکن یہاں معاملہ عدالت لے جانے پر لوگ خوش ہوتے ہیں کہ عدالت میں دیکھ لوں گا۔ کیس جب سپریم کورٹ میں آتا ہے تو پتہ چلتا ہے وہ بے گناہ ہیں۔ جیل میں ایک سال گزارنا بھی مشکل ہے جنہوں نے کئی سال جیلوں میں گزارے ان کا کیا کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں دیکھنا ہے کہ کتنے کیسز زیرالتوا ہیں۔پنجاب کے علاوہ پاکستان میں کہیں بھی معیاری فرانزک لیب نظر نہیں آئی‘ کروڑوں روپے کی پراپرٹی زبانی طور پر ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ جج قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ انہیں کوئی اختیار نہیں کہ اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کریں۔ لوگوں کے مقدمات کئی سال تک چلتے ہیں جس کو قوانین میں ترمیم کرنی ہے وہ اس پر توجہ دے جبکہ تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی جوڈیشل اکیڈمیز کو اپ ڈیٹ کریں۔ ججز کی ٹریننگ تعلیم کو مثبت اور بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا پراسیکیویشن تفتیش صحیح نہیں کرتی اور الزام عدلیہ پر آ جاتا ہے کہ انصاف نہیں ملا۔ عدالتی اصلاحات کی مہم کو تیز کرنا ہے۔ انصاف کی فراہمی کے لئے صرف پنجاب میں اچھا کام ہورہا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کے پاس وسیع اختیارات ہیں، ڈرتے وہ ہیں جن کی کمزوریاں ہوں، افہام و تفہیم سے چلیں گے۔ دی نیشن کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ دباﺅ میں ہے۔

مزیدخبریں