نیا سال اور نیا پاکستان

نئے سال کے آنے پر مختلف لوگوں کے مختلف خیالات و احساسات ہوتے ہیں کوئی کہتا ہے۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے
کسی کا یہ تبصرہ ہوتا ہے۔
پھر نیا سال نئی صبح نئی امیدیں
اے خدا خیر کی خبروں کے اجالے رکھنا
اسلامی نیا سال اگرچہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے مگر وقت کی قدر و قیمت اور احتساب نفس کے لحاظ سے جب کوئی موسم کوئی سیزن جدا ہو یا آتا ہے اس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک سال کے مکمل ہونے کیلئے بارہ مہینوں کا مکمل ہونا ضروری ہے اور ہر مہینے کیلئے اس کے ہفتوں کا مکمل ہونا ضروری ہے اور ہفتوں کیلئے اس کے ہر دن کا مکمل ہونا ضروری ہے ہر دن میں رب ذوالجلال نے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت رکھا ہے۔ ایک سال کے اختتام پر اور اگلے سال کے آغاز پر ایک انسان کو کیا کرنا چاہئے یہ سمجھنے کیلئے انسان کو ایک دن کے طلوع اور غروب پر غور کرنا چاہئے۔قومی سطح پر ہر سال تو کے آغاز پر پورے سال کی جامع منصوبہ بندی ہونی چاہئے مگر ہمارے ہاں سڑکوں پر غل غپاڑے آتش بازی ڈانس پارٹیاں عریانی فحاشی اور حیا سوز حرکتیں نئے سال کی آمد کے لوازمات پاتی ہیں۔ عیسوی سال کے آخری مہینہ تو ویسے بھی عالم ناپیدار کی بے ثباتی اور اداس موسم کی خبر دیتا ہے۔ آغوش بہار میں جی بہلانے والے سرسبز و شاداب پتے زرد ہو کر گرتے ہیں تو فکر آخرت کی پوری تقریر سنا دیتے ہیں۔
سب سے پہلے پاکستان کی معیشت دیکھیں تو ملکی معاشی حالات کے تناظر میں 95 فیصد آبادی پریشان ہے چونکہ عام شہری کے لحاظ سے معیشت کی بات ہو تو ذہن میں روزمرہ جو چیزیں کی ضرورت کی اشیاء بجلی پٹرول اور چولہے کے ایندھن کے اخراجات مکان کا کرایہ اور ٹیکس وغیرہ۔ مہنگائی کے طوفان کی موجیں دیکھ کر ساحل حیات پر بیٹھے کتنے لوگ تھر تھر ا رہے ہیں کہ آج تو بچوں نے کھانا کھا لیا کل کیا بنے گا۔ گزشتہ چھ ماہ میں ٹیکس آمدن کی مد میں 150 ارب کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 30 ارب ڈالر سے گھٹ کر 14 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ گردشی قرضے بڑھتے بڑھتے 1362 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ 2019ء میں ہم پاکستان سٹاک ایکس چینج کی ایسی افسوس ناک صورتحال کے ہمراہ داخل ہو رہے ہیں کہ پاکستان سٹاک ایکس چینج کی مالیت 77 ڈالر سے کم ہو کر 55 ڈالر رہ گئی ہے۔ 2018ء میں ڈالر 106 سے پرواز کرکے 140 پر جا پہنچا ۔ مہنگائی کی شرح 4.6 فیصد سے بڑھ کر آٹھ فیصد پر پہنچ گئی۔ ڈالر کی پرواز سے اب بھی پاکستان کا معاشی ڈھانچہ لرز رہا ہے اس وقت مہنگائی اور بے روزگاری کے تھپیڑوں میں ہچکولے لے لینا پاکستان کی معیشت کا ہفتہ بڑے گھمبیر مسائل سے دوچار ہے۔ نئے سال کی آمد گھریلو صارفین کے لحاظ سے یوں ہوئی ہے۔ لوگ پہلے تو گیس کی لوڈشیڈنگ کا رونا رو رہے تھے۔ اب بجلی کی لوڈشیڈنگ نے بھی ویرانیاں بکھیر دیں ہیں۔ تربیلا اور منگلا سے بجلی کی فراہمی محدود ہو گئی ہے صرف چھ سو میگا واٹ بن بجلی پیدا ہو رہی ہے تیرہ باور پلانٹس اور تربیلا اور منگلا کے 22 یونٹ بنتے ہیں۔ آر ایل این جی کیی عدم فراہمی پر بھکھی کے بعد بلو کی پاور پلانٹ بھی بند ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں مزید گیارہ سو اسی میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل چکی ہے۔ ملک میں مجموعی صورحال یہ بن چکی ہے کہ اکثر علاقوں میں لوگ پوچھتے ہیں کہ بجلی کب آتی ہے۔ کیونکہ اس کا آنا شاذو نادر اور غیر یقینی ہو چکا ہے۔ اگر ملک میں علاج معالجہ اور طبی سہولیات جا جائزہ لیا جائے تو بڑے بڑے شہروں سے لیکر چھوٹے دیہاتوں تک بہت ناگفتہ بہ صورتحال ہے۔ کہیں تو ڈاکٹر جلاد ہیں اور کہیں خود ڈاکٹر بھی مصروف فریاد ہیں۔ مریضوں کیلئے ایک بہت بڑی آفت میڈیسن مافیا بھی ہے۔دوائی کی جس ڈبی پر مثال کے طور پر دو سو روپے کی قیمت پرنٹ ہوتی ہے غریب بیمار سے پڑھ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ میڈیکل سٹور والے نے اسے یہ دوائی کنٹرول ریٹ پر دی ہے۔ حالانکہ اس بے چارے کو لوٹ لیا گیا ہے کیونکہ اس دوائی کی پیداواری لاگت صرف پچاس روپے تھی۔ ملک میں روحانی اور اخلاقی اقدار بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔ عریانی فحاشی اور شراب نوشی و منشیات فروشی سے پورا معاشرہ آتش فشاں بن چکا ہے۔ ان چند سطور میں ہم نے جو پاکستان کی اقتصادی معاشی سماجی سیاسی اخلاقی معاشرتی دفاعی اور امن و آشتی کے گھمبیر معاملات کا مختصر تذکرہ کیا پرانے پاکستان کی ان تمام کمزوریوں اور بیماریوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اگر ان تمام خامیوں سے مخفوظ ملک کا نام نیا پاکستان ہے تو ایسا نیا پاکستان ضرور بننا چاہئے۔ کہ جس میں ہر کسی کیلئے عدل و انصاف تعلیم علاج معالجہ کی سہولتیں امن و آشتی کا ماحول روزگار کے مواقع اور خوشحالی کی فضا فراہم کی جائے۔ لیکن اگر نئے پاکستان سے مراد اسلامی تشخص سے محروم سلطنت نظریہ پاکستان سے بیگانہ سٹیٹ مذہبی آزادی کے نام پر قادیانیوں اور دیگر اقلیتوں کو مسلمانوں پر فوقیت دینے والا ملک ہو تو یہ ایسا نیا پاکستان شہدائے آزادی کے خون سے غداری اور اکابرین پاکستان کی امانت میں خیانت ہے۔ پاکستان کا اسلامی تشخص دائو پر لگا دیا جائے تو ایسا نیا پاکستان بھی قیام پاکستان کے شہیدوں مجاہدوں اور لیڈروں کی ارواح کو سکون نہیں پہنچا سکے گا بلکہ واضح طور پر قیام پاکستان کے مقاصد سے انحراف ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن