وزیراعظم ہاؤس میں یونیوسٹی نہیں بن سکتی، سی ڈی اے۔
تو کیا ہوا اس میں پریشانی کیسی۔ اسے اعلیٰ درجے کا فائیو سٹار ہوٹل بنا دیں۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ یہ ہوٹل یونیورسٹی سے دو گنا کما کر دے گا، ہمارے ہاں ویسے بھی نجی شعبہ نے درسگاہوں، تعلیمی اداروں اور سکولوں میں بھرپور سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ان کی وجہ سے علم پھیلے نہ پھیلے کتابوں اورکاپی والوں کی سٹیشنری اور یونیفارم بنانے والوں کی اور تو اور‘ جوتے بنانے والوں کی بھی بھرپور چاندی ہو رہی ہے۔ اس لئے ’’لگے رہو منا بھائی‘‘کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر جگہ پر بہتر منصوبہ شروع ہو سکتا ہے۔ ہمارا نودولتیا طبقہ اور اشرافیہ ایسے ہوٹلوں میں آنا جانا اور رہنا پسند کرتے ہیں جہاں زندگی کی تمام رعنائیاں پوری توانائی کے ساتھ نظروں کو چکاچوند کرتی ہوئی جلوہ افروز ہوں۔آزمائش شرط ہے ہوٹل بنا کر دیکھیں وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ بھرپور توجہ کے باعث عمارت کی خوبصورتی اور آرائش بھی بحال رہے گی جو ٹھہرنے والوں کے قلب ونظر کو سکون بخشے گی۔ ویسے بھی یونیورسٹی بنا کر کیا ہوگا آئے روز ہڑتال ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ۔ایک آدھ سال میں ساری عمارت مقبرہ نورجہاں کا منظر پیش کرے گی۔ اس لئے اسے کھنڈر بننے سے بچانے کے لئے ہوٹل بنا دیجیے۔ یہ حکومت کا کماؤ پوت ثابت ہو گا۔ اچھی بھلی خوبصورت عمارت کو تباہ کرنے سے بہتر ہے اسے بنا سنورا رہنے دیا جائے۔
٭…٭…٭
سرمایہ کاری بڑھے گی تو نوکریاں ملیں گی: اسد عمر
یہ نسخہ کیمیا تو ایک عام ان پڑھ اور جاہل بھی جانتا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری ہوگی نئے کارخانے لگیں گے، نئے منصوبے بنیں گے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بیروزگاروں کو نوکریاں ملیں گی مگر یہ سب کچھ تب ہوگا جب یہاں سرمایہ کار آئیں گے سرمایہ کاری کریںگے۔ اس وقت حکومت کی جو پالیسیاں چل رہی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے تو دور دور تک کوئی اُمید نظر نہیں آتی کہ کوئی عقل کا مارا سرمایہ کاری یہاں کا رخ کرے صرف چین پر ہی پاکستان حکومت کا سارا دارومدار ہے تو اس سے کام نہیں چلے گا۔ ایک کروڑ نوکریاں کوئی خالہ جی کا گھر نہیں بلند وبانگ دعوے کرتے وقت نجانے کیوں ہم بھول جاتے ہیں کہ ان کو پورا کیسے کیا جائے گا۔موجودہ ملکی حالات میں سرمایہ آنے کی بجائے تیزی سے نکل رہا ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ کہیں کاغذی کشتی یعنی روپے کی ناؤ ڈوب ہی نہ جائے۔ سرمایہ کاری کرنے والے کب اپنے سرمایہ کی کہ کہاں سے آیا جواب دہی پسند کرتے ہیں اوپر سے نہ بجلی نہ گیس تو کارخانے یا منصوبے کیا ہوا کی چکی سے چلیں گے یا سورج کی روشنی سے مشینیں چلائی جائیں گی صنعتی و معاشی میدان میں اس وقت…؎
ایک ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
والی حالت ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہو رہے ہیں۔ شرح نمو 1.3 پرسنٹ مزید کم ہو کر 3.7تک پہنچ گئی ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ترین ہے اب تو وزیر خزانہ کو وہ الہ دین کا چراغ نکالنا ہی پڑے گا جس کی بدولت ان کے دعوے سچ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ورنہ ملکی معیشت کی موجودہ صورت حال میں تو نوکریاں اڑن چھو ہی رہیں گی۔
٭…٭…٭
دہشت گردی کی ہدایات فاروق ستار، وسیم اختر، حیدر عباس اور نصرت ندیم دیتے تھے: سعید بھرم
یہ کم بخت ناس پیٹا جھاڑو پھیری صورت والا سعید بھرم پولیس کے سامنے کس کس کا بھرم کھول رہا ہے۔ ان ناموں کے بعد اور رہ ہی کون جاتا ہے جس کو یاد رکھا جائے۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ کیا دیدوں کا پانی اتنی جلد مر جاتا ہے۔ حیرت ہے ایم کیو ایم والوں نے ایسا بودا ٹارگٹ کلر منتخب ہی کیوں کیا تھا جو ’’آ جا مورے بالما‘‘ کی چند گردانوں کے بعد ہی طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کرنے لگا ہے۔ اگر ہمت نہیں تھی برداشت نہیں تھی تو ایسے کام کر ہی کیوں رہا تھا۔ چلیں اس بات کو چھوڑیں۔ پولیس اب زیادہ مونچھوں پر تائو نہ دے۔ سعید بھرم نے ان کا بھرم بھی کھول دیا ہے۔ اس کیمطابق ایم کیو ایم لندن والوں کا نیٹ ورک جیل میں بھی پوری طرح فعال ہے۔ یعنی جیل کی چاردیواری میں ایم کیو ایم لندن والے جان بچا کر بیٹھے ہیں اور وہاں اطمینان سے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ یوں جان بھی محفوظ کام بھی اسے کہتے ہیں ھینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا ہو‘‘ ابھی چند روز قبل اور اس سے کچھ ہفتہ پہلے کراچی سنٹرل جیل میں طوفانی چھان بین ہوئی۔ ہائی الرٹ چیکنگ کی گئی۔ نتیجہ کیا نکلا دھاک کے تین پات‘‘۔ ان کاغذی اور نمائشی کارروائیوں کا بھرم اب ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلر سعید بھرم کھول رہے ہیں تو اس پر کراچی کی انتظامیہ، پولیس اور حکومت کو ہم صرف یہی کہ سکتے ہیں ’’پڑھتا جا شرماتا جا‘‘ جنوبی افریقہ یا لندن نیٹ ورک کا رونا رونے والے ذرا اپنی ناک کے نیچے چلنے والے اس نیٹ ورک کی تو خبر لیں جہاں سب کا کام چل رہا ہے وہ بھی اطمینان سے گڑکھا کے۔
٭…٭…٭
رسم پاکستان دنگل میں شرکت کی اجازت نہ ملنے پر بشیر بھولا بھالا نے ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا
پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ یہ دنگل ہے کیسا جس کا کوئی اشتہار نہیں نکلا۔ تانگوں پر ڈھول بجا کر قد آدم پوسٹر لگا کر کیا شہر، کیا دیہات اس کی تشہیر تک نہیںکی گئی۔ اب کوئی کہہ سکتا ہے۔ جناب تانگوں کا دور گیا تو ٹھیک ہے یہ دن رات بھاں بھاں کرنے والے ٹی وی چینلز کس مرض کی دوا ہیں۔ ان پر کوئی اشتہار کیوں نہ چلا، اخبارات کا دامن اس سے کیوں خالی رہا۔ اوپر سے جن کو دعوت نامے ملے معلوم نہیں وہ فن پہلوانی میں طاق ہیں یا نہیں۔ دائو پیچ سے واقف ہیں یا نہیں ۔کہیں اپنے منظور نظر کسی پہلوان کو رستم پاکستان بنوانے کا ارادہ تو نہیں منتظمین کا تاکہ اناڑی کھلاڑیوں میں وہ اندھوں میں کانا راجہ بن سکے۔ اب بشیر بھولا بھالا نامی گرامی پہلوان ہیں۔ پورے ملک میںفن پہلوانی کے شائقین ان کو جانتے ہیں۔ ان کا تو نام ہی ایسا ہے کہ خود بخود یاد ہو جاتا ہے۔ جیسے کسی دور میں پری پیکر اور بجلی نامی اداکارائوں کی طرح پہلوانوں کی دھوم تھی۔ اب بھولا بالا عدالت میں پہنچ گئے ہیں کہ وزارت کھیل اور ڈی جی سپورٹس نے ان کو رستم پاکستان دنگل میں شرکت کا کیوں نہیں کہا۔ وہ ایک گولڈ میڈلسٹ پہلوان ہیں انہیں شرکت کی اجازت مل گئی تو پھر پتہ چلے گا کہ رستم پاکستان کون ہے۔