آسیہ کی رہائی‘ احتجاج سے ہونیوالے نقصان کا معاوضہ ایک ماہ میں دیا جائے : چیف جسٹس

Jan 13, 2019

لاہور(وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو حکم دیا ہے آسیہ مسیح کی رہائی پر کئے گئے احتجاج کے دوران ہونے والے مالی نقصان کی ایک ماہ کے دوران ادائیگی کی جائے۔فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا نقصان کا تخمینہ 262 ملین لگایا ہے کابینہ نے تخمینہ کی منظوری دے دی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا رپورٹیں تو دے دی گئی ہیں بتایا جائے ادائیگیاں کب اور کیسے ہوں گی۔بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دئیے کہ ڈھائی ماہ گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک ادائیگی کا مکمل پلان نہیں دیا گیا۔ عدالت حکم نہ دیتی تو یہ پلان بھی نہ آتا۔بینچ کے رکن جسٹس اعجازِ الاحسن نے استفسار کیا ادائیگی کے لیے کوئی پلان بھی مرتب کیا ہے یا سب کاغذی کارروائی ہے۔سیکشن آفیسر محکمہ داخلہ نے عدالت کو بتایا رواں ماہ ادائیگیاں کر دیں گے۔چیف جسٹس نے حکم دیا ایک ماہ میں مکمل ادائیگیاں کر کے عمل درآمد رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔اس سے پہلے حکومت پنجاب کی جانب سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا تھا آسیہ مسیح کیس میں فیصلے کے ردعمل میں توڑ پھوڑ سے نجی و سرکاری املاک کو 26 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔سپریم کورٹ کے سربراہ نے ذرائع ابلاغ پر چلنے والی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے توڑپھوڑ میں ملوث افراد کے بارے میں تحقیقات کا حکم بھی دیا تھا۔سپریم کورٹ نے سرکاری اراضی پر پٹرول پمپس کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت پر لاہور کے 24 پٹرول پمپس کی نیلامی کا حکم دے دیا ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی ۔ ڈی سی لاہور نے عدالت کو بتایا لاہور کے24 پٹرول پمپس کی لیز ختم ہو گئی کرائے کی مد میں ایک پیسے کی ادائیگی نہیں کی جارہی جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے سرکاری زمین کی بندر بانٹ نہیں ہونے دیں گے ۔اس لئے رولز اور قانون کے مطابق ان پٹرول پمپوں کی نیلامی کی جائے۔ سپریم کورٹ نے یونائیٹڈ کرسچین ہسپتال(یو سی ایچ) کی بحالی سے متعلق ازخود کیس کی سماعت پر قائم کی گئی سٹیرنگ کمیٹی کو اجلاس کر کے تین روز میں رپورٹ اور تجاویز پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ہسپتال کی بحالی سے متعلق ازخود کیس کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہسپتال کی جگہ پر شادی گھر نہیں بننے دیں گے ۔ کیسے معاملات چلیں گے۔ بہترین ہسپتال کی کسی نے دیکھ بھال نہیں کی۔ہسپتال میں دو آپریشن تھیٹر تھے وہ بھی ناکارہ ہو گئے۔ ہسپتال کو اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے کمیٹی میٹنگ کرکے رپورٹ پیش کرے ۔ ہم نے ہسپتال کا دورہ کیا تو عجیب صورتحال تھی۔ 48لاکھ روپے کا بجلی کا بل تھا ہسپتال کی بجلی بھی عدالت نے بحال کرائی ۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا ہسپتال کی اراضی پر کیے گئے قبضہ بھی عدالت نے واگزار کرائے ۔ یو سی ایچ لاہور کی شان تھا اب کھنڈر بن گیا ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی اور ایف سی کالج نے ٹیچنگ فیکلٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جن ٹھیکیداروں نے بڑے بڑے ٹھیکوں کے ذریعے کروڑوں کمائے ہیں وہ ہسپتال کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت نے ہسپتال کی بحالی کے لیے 25 فیصد رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حکومت نے پہلے بھی بحالی کے لیے کوشش کی مگر تمام کارروائی بے سود رہی ۔ عدالت نے کمیٹی کو تین روز میں ہسپتال کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کرنے کا حکم دیدیا۔سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی میں بے ضابطگیوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت پر ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ درج نہ کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔تاہم فاضل عدالت نے فریقین کے وکلاءکو 16 جنوری کو رپورٹ پر جواب داخل کرنے کی مہلت دے دی۔ ڈی جی اینٹی کرپشن نے پی کے ایل آئی میں بے ضابطگیوں پر رپورٹ پیش کی۔ ڈی جی اینٹی کرپشن حسین اصغرنے بتایا پی کے ایل آئی فاسٹ ٹریک پراجیکٹ تھا اسی وجہ سے قانون کی سنگین خلاف ورزی ہوئی۔ پی کے ایل آئی میں کنسلٹنٹس کو بھاری معاوضے ادا کئے گئے۔ پی کے ایل آئی پراجیکٹ گزشتہ سال دسمبر میں مکمل ہونا تھا مگر مکمل نہ ہوا۔ پراجیکٹ میں مس کنڈکٹ ہوا، سرکاری افسران ملوث ہیں۔ کنسلٹنٹس کو بھاری ادائیگیاں کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔منصوبہ تاخیر سے مکمل کرنے پر کسی کو سزا نہیں دی گئی۔منصوبے میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی۔جبکہ مروجہ قوانین کے بھی خلاف ہے۔ عملے کو تنخواہ دی گئی مگر کام نہیں ہوا جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا فرانزک آڈیٹر رپورٹ میں مس ریڈنگ کو بنیاد بنا کر رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ وکیل ڈاکٹر سعید اخترنے کہا ہمیں اینٹی کرپشن کی رپورٹ فراہم نہیں کی گئی جواب داخل کرانا چاہتے ہیں۔ ایف آئی آر درج کر دی گئی تو کیرئیر پر دھبہ ہو گا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے تو جواب داخل کرا دیں۔ اعتزاز احسن نے کہا ہم جواب داخل کرا دیتے ہیں مگر ایف آئی آر درج نہ ہو۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کیوں ایف آئی آر درج نہ ہو؟ ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے یہ ساری تحقیقات کر کے ان لوگوں کو چھوڑ دیں گے اگر یہ ملوث نہ ہوئے۔ ہم کہہ دیتے ہیں اینٹی کرپشن غیرقانونی گرفتاریاں نہ کرے۔ اعتزاز احسن نے کہا ایف آئی آر بہت بڑا سٹگما ہے۔ چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسارکیا کتنے دن میں جواب دیں گے۔ اعتزاز احسن نے کہا بدھ تک جواب جمع کرا دیں گے۔ دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سرکاری سطح پر بچوں کے جگر کے علاج کے لئے کوئی سہولت نہیں۔ یہ عوام کی زندگی کا معاملہ ہے ہم مدد کرنا چاہتے ہیں جس پر ڈاکٹر یاسیمن راشد نے کہا پی کے ایل آئی کابینہ نے قانون سازی کر لی ہے اور بورڈ آف گورنر بنا دیا گیا ہے۔ جون تک بچوں کے جگر کی پیوند کاری شروع ہو جائے گی۔ جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا ہم بھی چاہتے ہیں یہ ہسپتال حکومت چلائے پہلے کی طرح ٹرسٹ نہیں۔ پرانے ٹرسٹ کے ممبران کو پی کے ایل آئی کے بورڈ آف گورنر میں شامل نہ کیا جائے۔ عدالت نے پی کے ایل آئی کی سابق انتظامیہ کے وکلاءکو بدھ تک جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی کے سروس سڑکچر کی قانون سازی سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا چونتیس ارب خرچ ہوگئے. اس میں چار اسپتال بن سکتے تھے۔س منصوبے سے ابھی تک کوئی سہولت نہیں ملی۔ یہ منصوبہ کب شروع ہوگا۔جس دن صحیح معاملات چلانے والے آگئے معاملہ درست ہو گا۔پارلیمنٹ کو. ڈکٹیشن نہیں دے سکتے۔پی کے ایل آئی میں علاج مہنگا ہورہا ہے۔جن لوگوں نے ووٹ لینا ہے وہ معاملات دیکھیں۔ ہم نے ووٹ نہیں لینا۔وزیر صحت نے بتایا چھ ماہ میں پی کے ایل آئی کام شروع کردیگا اور آئندہ اجلاس میں قانون منظور ہوگا۔صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسیمین راشد عدالت میں پیش ہوئیں اور فاضل عدالت سے کہا آپ کے ریمارکس پر اپوزیشن مجھ سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔فاضل چیف جسٹس نے کہا آپکو استعفی نہیں دینے دیں گے آپ اپنا کام کریں۔گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں آپ بہت قابل احترام ہیں۔آپ کا پورا کیرئیر بے داغ ہے۔ہمارے خلاف بھی مہم چلائی جاتی ہیں ایسے واٹس ایپ میسج موجود ہیں۔کیا ان حالات میں کام کرنا چھوڑ دیں؟ فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کس نے آپکے خلاف یہ مہم شروع کی ہے۔آپ کا کردار قابل تحسین ہے ہمارے پاس الفاظ نہیں جن سے آپ کی تعریف کی جائے۔ سپریم کورٹ نے28 نجی یونیورسٹیز کے چارٹرڈ کے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے کابینہ سے منظور شدہ روڈ میپ اور چارٹر کا نوٹیفیکشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔فاضل عدالت نے حکم دیا نوٹیفیکیشن جاری کرکے عدالت میں رپورٹ جمع کروائی جاے۔عدالت میں صوبائی وزراءنے بتایا 28 یونیورسٹیوں کو ریگولیٹ کرنے کےلیے چارٹر اور روڈ میپ تیار کرلیا۔ سپریم کورٹ نے ایل ڈی اے سٹی کیس نمٹا دیا صوبائی وزیر ہا¶سنگ میاں محمود الرشید نے فاضل عدالت کے روبرو بیان دیا ہمارے پاس 13 ہزار کنال زمین موجود ہے جس پر فیز ون بناکر متاثرین کو دیں گے فاضل عدالت نے میاں محمود الرشید کے بیان کی روشنی میں معاملہ نمٹا دیا چیف جسٹس نے پلاٹوں کی تقسیم کی کمیٹی میں نیب افسران کو شامل کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا نیب کا اس کمیٹی میں کیا کام، نیب کی تلوار کیوں لوگوں کے سر پر لٹکا دی متعلقہ وزیر نے بتایا ایڈن سوسائٹی کے متاثرین خوار ہو رہے ہیں فاضل عدالت نے کہا ایڈن سوسائٹی کا کیس تو حل ہو چکا جس پر وزیر ہا¶سنگ نے بتایا ڈاکٹر امجد والا کیس ابھی تک حل نہیں ہوا وہ باہر چلے گئے ہیں فاضل عدالت نے قرار دیا ایل ڈی اے سٹی میں لوگ پیسے دیکر بیٹھے ہیں لیکن انہیں زمین نہیں ملی کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دیں گے۔سپریم کورٹ نے پلاسٹک کی بوتلوں میں ادویات کی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور محکمہ ماحولیات پنجاب سے جواب طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ نے ہسپتالوں کے باہر کوڑے کے ڈھیر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چار ہفتے میں ہسپتالوں کے باہر کوڑے کے ڈھیر ختم کرنے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ نے طیفی بٹ کے خلاف زمین پر قبضہ کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے سول کورٹ کو دو ماہ میں زمین پر قبضے سے متعلق کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس کے حکم پر طیفی بٹ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے کہا کدھر ہے یہ طیفی بٹ؟ ایس پی معاذ نے فاضل عدالت کو بتایا پولیس کو دھمکانے والا بندہ طیفی بٹ کا ہے۔اسلم مجید نے ڈپٹی سیکرٹری سیٹل مینٹ کو فون پر دھمکایا۔اس پر عدالت نے کہا یہ عزت کرتے ہو تم سپریم کورٹ کی طیفی بٹ؟اس پر طیفی بٹ نے فاضل عدالت کو کہا یہ میرا آدمی نہیں ۔عدالت نے طیفی بٹ کے وکیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ان کی پیروی اس حد تک کریں جس حد تک کر سکتے ہیں۔عدالتوں کو کمزور نہ کریں۔ایک دن طیفی بٹ نے بھی نہیں رہنا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالتوں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔میں نے سسٹم ٹھیک کرنا ہے۔طیفی بٹ ہو سکتا ہے تمھارا بیٹا اتنا طاقتور نہ ہو۔آپ کو ایک ہفتہ پہلے زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے۔میں بندے کی شکل دیکھ پہچان لیتا ہوں کہ وہ کیسے مزاج کا ہے۔آپ تو کن ٹٹے نہیں لگتے۔
چیف جسٹس

مزیدخبریں