چوہدری نثار علی خان کا ’’چپ کا روزہ ‘‘

گذشتہ چار دہائی سے پاکستانی سیاست میں نمایاں کردار اداکرنے والی سیاسی شخصیت چوہدری نثار علی خان ان دنوں گوشہ نشینی میں ہیں وہ بظاہر عملی سیاست سے لاتعلق ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں لیکن پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران ان کا اپنے حلقہ ہائے انتخاب سے رابطہ مضبوط ہو گیا ہے وہ جلسہ جلوس کئے بغیر خاموشی سے پورا ہفتہ ووٹرز کے ساتھ گذارتے ہیں ان کی باتیں سنتے ہیں لیکن سیاسی موضوعات پر کھ کر بات کرنے سے گریز بلکہ ’’ اشاروں کنایوں ‘‘ میں بات کرتے ہیں ۔ جب سے انہوں نے مسلم لیگ سے ناطہ توڑا ہے دوبارہ اس کی طرف دیکھا ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کو جائن کرنے کی دعوت قبول کی ہے یہی وجہ ہے جب ‘‘طاقت ور‘‘ لوگوں نے انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کی پیشکش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ پہلے شکست کے بارے میں بتایا جائے کہ کہ ’’مجھے صوبائی نشست پر جیتنے تو دے دیا گیا لیکن قومی اسمبلی میں شکست سے دوچار کر دیا گیا ڈیڑھ سال قبل ہونے والے عام انتخابات میں انہوں نے تاحال شکست قبول نہیں انہوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اورمصلحتاً خاموشی کر رکھی ہے تاحال ان تک میڈیا کی رسائی ممکن نہیں ان سے ملاقات اور انٹرویو کے خواہش صحافیوں کی طویل فہرست ہے میرا ان کو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بھی انٹرویو نہیںدیںگے البتہ جب وہ خود ضرورت محسوس کریں گے تو انٹرویو بھی دے دیں گے بصورت دیگر انہوں نے چپ کا روزہ رکھا ہے اس کا افطار بھی مناسب وقت پر کریں گے لہذا انہیں مناسب وقت کا انتظار کرنا ہو گا میں نے بارہا چوہدری نثار علی خان کو اپنی سوانح حیات قلمبند کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ پاکستان کی چار عشروں کے سیاست کے امین ہیں لیکن وہ اس کے لئے تیار نہیں ان کا کہنا ہے’’ جھوٹ میں لکھ نہیں سکتا اور سچ لکھ کر لوگوں ناراض نہیں کرنا چاہتا ‘‘ میں نے ان کوسوانح حیات میں قلمی تعاون کی پیشکش بھی کی لیکن تاحال وہ ’’سچ ‘‘ لکھنے سے گریزاں ہیں ۔میں ان چند خوش نصیب صحافیوں میں ہوں جن کی ان تک رسائی ہے لیکن پچھلے چند دنوں سے میں نے بھی ان کو فون کیا اور نہ ان کی جانب سے ملاقات کا کوئی پیغام آیا ایسا دکھائی دیتا ہے ان کے پاس کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن وہ مصلحتاً کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے وہ بھی ملاقات کے لئے کسی مناسب وقت کے منتظر ہیں البتہ ان کے ووٹرز کی قسمت جاگ گئی ہے اب وہ پورا پورا دن ان کے ساتھ خوش و خرم رہتے ہیں لیکن وہ ملاقات کی خواہش رکھنے والے مسلم لیگی دوستوں کی کال کا جواب نہیں دیتے ان دوستوں میں رانا تنویر حسین کا نام نمایاں ہے جنہوں نے تاحال چوہدری نثار علی خان کی مسلم لیگ (ن)
میںواپسی کی کوششیں ترک نہیں کیں شاید اسی لئے وہ ان سے ملاقات سے گریزاں ہیں انہوں نے تین چار روز قبل این اے59میں کلیال میں سماجی تقریب میں کہا ہے کہ’’ عوام مایوسی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں‘‘ تاہم انہوں نے وقت آنے پر چپ کا روزہ توڑنے کا عندیہ دیا ہے چوہدری نثار علی خان نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز مسلم لیگ سے کیا تھا اور 34سال سے میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے میدان سیاست میں سرگرم عمل رہے ہیں ان کے پاس مسلم لیگ(ن) کا کبھی کوئی عہدہ رہا وہ ہمیشہ مسلم لیگیوں میں’’ عہدے اور وزارتیں‘‘ بانٹتے رہے لیکن ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت ان کو میاں نواز شریف سے اس قدر دور کر دیا گیا کہ اب ان کی واپسی کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا عسکری پس منظر رکھنے والی سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے ان کو ’’فوج ‘‘ کا آدمی تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ ان کی شخصیت کا کمال ہے کہ وہ پچھلے 34سال سے ایسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کو نمٹاتے رہے ہیں مسلم لیگ (ن) کے ’’انقلابیوں ‘‘ کی ’’ایسٹیبلشمنٹ ‘‘ کے ساتھ لگائی گئی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں پھر نواز شریف ان کے دئیے گئے ’’پرکشش ‘‘ نعروں کا تر نوالہ بن گئے پارلیمان میں مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے سروسز ایکٹس ترمیمی بلوں کی حمایت کی لیکن سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ مسلم لیگ (ن) کو بنایا جا رہا ہے اس کے ’’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کا مذاق اڑایا جا رہا ہے پی ایم ایل این کو میاں نواز شریف اور مریم نواز نے ایک ’’مزاحمتی تحریک ‘‘ بنانے کی کوشش کی لیکن اپنے اصولی موقف میں ’’تاریخی‘‘ یو ٹرن لینے پر دفاعی پوزیشن اختیار کر لی ہے اس وقت پی ایم ایل این پر جتنا برا وقت آیا ہے شاید ماضی میں کبھی نہیں رہا ، مسلم لیگ (ن) پر وہ لوگ بھی تنقید کے تیر چلا رہے ہیں جنہوں نے پچھلے ڈیڑھ سال میںاپنے آپ کو بچانے کے لئے بار بار اپوزیشن کی کمر میں چھرا گھونپا ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں چوہدری نثار علی خان جس ’’ بیانیہ‘‘ کی وجہ سے ’’راندہ درگاہ‘‘ ٹھہرے آج اسی ’’بیانیہ ‘‘ کو اپنانے پر مسلم لیگیوں کو چوہدری نثار علی خان سے’’ باجماعت ‘‘معافی مانگنے کا کہا جا رہا ہے پی ایم ایل این کے قائد میاں نواز شریف اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ’’بے جگری ‘‘ سے مقابلہ کر رہے تھے لیکن شدید علالت نے انہیں علاج کے لئے لندن جانے پر مجبور اًکر دیا جب کہ میاں شہباز شریف نے بھی لندن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ان کی فوری وطن واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا پارٹی کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی اور سیکریٹری جنرل احسن اقبال میاں نواز شریف کا ساتھ دینے کے ’’جرم‘‘ میں پابند سلاسل ہیں مریم نواز نے بھی جاتی امرا میں چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اس وقت پارٹی میں قیادت کا خلاء ہے جہاں نواز شریف کے سیاست سے’’ آئوٹ‘‘ ہونے کی صورت میں کچھ رہنمائوں میں ’’وزارت عظمیٰ ‘‘ کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے اس وقت پارٹی میں چوہدری نثار علی خان کے لئے بڑی گنجائش موجود ہے لیکن وہ دوبارہ پی ایم ایل این کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں جسے انہوں نے خون سے سینچ کر ایک تناور درخت بنایا اگر یہ کہا جائے کہ وہ مسلم لیگ(ن) کا ’’سیاسی دماغ ‘‘ تھے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی مجھے ذاتی طور اس بات کا علم ہے مختلف مواقع پر انہیں میاں نوازشریف کی جگہ ملک کا وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی گئی لیکن مسلسل8بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے والے ’’راجپوت‘‘ نے ہمیشہ میاں نواز شریف کو ’’بائی پاس‘‘ کرکے وزارت عظمیٰ کی پیشکش کو ٹھکرا دی شاید یہی وجہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے بے حد قریب تھے سیاست کاموسم سردہو یا گرم چوہدری نثار علی خان ،شریف خاندان کے سب سے قابل اعتماد ’’فرد‘‘ رہے مرحوم میاں شریف انہیں اپنا چوتھا بیٹا سمجھتے تھے لیکن سیاست ایک ایسا ظالمانہ کھیل ہے جس میں اقتدار کے حصول میں’’ بھائی بھائی‘‘ کا سر قلم کر دیتا ہے بیٹا باپ کو قید خانے میں ڈال دیتا ہے’’ بھائی بھائی ‘‘کی آنکھیں نکلوا دیتا ہے لیکن میں پچھلے تین عشروں سے دیکھ رہا ہوں میاں نواز شریف کے سیاسی سفر میں ساتھی بدلتے رہے مشکل وقت میں کئی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن چوہدری نثار علی خان گنتی کے ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے’’ سردگرم موسم ‘‘میں بھی شریف خاندان کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن آج وہ رانا تنویر حسین ، چوہدری تنویر خان اور سردار ایاز صادق سمیت متعدد مسلم لیگی رہنمائوں کی کوششوں کے باوجود پی ایم ایل این میں واپس آنے کے لئے تیار نہیں ۔ پچھلے 34سال کے دوران میاں محمد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان بارہا ’’ناراضیاں‘‘ اور’’ جھگڑے ‘‘ہوئے لیکن ان کے درمیان اتنی دوریاں پیدا ہو گئی ہیں جو ختم ہونے کو نہیں آ رہیں چوہدری نثار علی خان کے ’’پارلیمان ‘‘ سے باہر ہونے کا سب سے زیادہ ’’فائدہ ‘‘ ان مسلم لیگیوں کو ہوا ہے جن کی ان کی موجودگی میں ’’دال‘‘ نہیں گلتی تھی چوہدری نثار علی خان کی پیپلز پارٹی سے نہیں بنتی تھی یہی وجہ ہے وہ اس کے’’ دل‘‘ میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیںجب کہ مسلم لیگ(ن) کی’’ فاختائیں‘‘پیپلز پارٹی سے قربت کو ہی اپنی ’’سیاسی معراج ‘‘ سمجھتی ہیں آج پیپلز پارٹی اورپی ایم ایل این باہم ’’شیر و شکر ‘‘ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی مسلم لیگ(ن) کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے تو طعنہ دے دیا ہے کہ میاں نواز شریف نے باہر جانے کے لئے اپنے ’’ووٹوں‘‘ کو فروخت کر دیا ہے جب کہ ماضی قریب میں اعتزاز احسن پارلیمنٹ تک پہنچنے کے لئے پی ایم ایل این کی مدد کے خواستگار رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) پر یہ برا وقت آنا تھا آج اس کا کوئی لیڈر اعتزاز احسن کو جواب دینے کے لئے تیار نہیں آج کل چوہدری نثار علی خان جہاں بھی جاتے ہیں ان کو اپنے ووٹرز کی طرف سے ایک ہی سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان کا آئندہ
کا لائحہ عمل کیا ہے ؟ کیا وہ دوبارہ پی ایم ایل این میں شامل ہو جائیں گے یا اپنے ’’دوست‘‘ کپتان گی قیا دت قبول کر لیں گے تو وہ برملا یہ بات کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان دونوں جماعتوں میں شمولیت کی کوئی ہدایت نہیں آئی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کے بغیر بھی سیاست میں ’’زندہ‘‘ رہا جاسکتا ہے چوہدری نثار علی خان سے محبت کرنے والوں کی بڑی تعدا د پی ایم ایل این میں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کا ’’مستقبل‘‘ پاکستان مسلم لیگ (ن )سے وابستہ ہے لیکن وہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوئے بغیر سیاست میں زندہ رہنا ثابت کرنا چاہتے ہیں میاں محمد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ’’صلح ‘‘ کرانے والی کوئی شخصیت نہیں میاں شریف زندہ ہوتے تو آج دونوں میں دوری کی نوبت ہی نہیں آتی میاں شہباز شریف جو چوہدری نثار علی خان کے’’یار غار ‘‘ ہیں لیکن وہ بھی ’’بے بس‘‘ دکھائی دیتے ہیں جب میں نے ایک دن پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن لیڈر چیمبر میں میاں شہباز شریف کو چوہدری نثار علی خان کو منانے کا مشورہ دیا تو وہاں موجود مسلم لیگیوں نے اس طرح شدید رد عمل کا اظہار کیا جیسے میں نے ’’بھڑوں ‘‘ کے چھتہ میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔ چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف جو حکومت اور بھی فوج کے درمیان ’’تعلقات کار‘‘ بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اب یہ سارا کام تنہا میاں شہباز شریف بخوبی سر انجام دے رہے ہیں پی ایم ایل این کی اعلیٰ قیادت کے بیرون ملک ’’ڈیرے ‘‘ ڈالنے سے ان کی پارٹی پر ’’گرفت ‘‘ کمزور ہوگئی ہے یہی وجہ ہے جب قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں میاںنواز شریف کا ’’تازہ ترین‘‘ پیغام رکھا تو انہیں اجلاس میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا انہیںپارلیمانی پارٹی کے ارکان کو مطمئن کرنے میںخاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مسلم لیگ(ن) ایک’’شخصی‘‘ جماعت ہے جس میں پارٹی قائد میاں نواز شریف سے اختلاف کرنے والوں کی گنجائش نہیں کیونکہ وہ ان کے ووٹ بینک کی وجہ سے پارلیمنٹ کا منہ دیکھتے ہیں پارلیمان میں سروسز ایکٹس میں ترمیمی بل کی حمایت کے ایشو پر جہاں اپوزیشن ’’منقسم ‘‘ہو گئی ہے وہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی’’ خلفشار‘‘ کا شکار ہے ماضی میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف جدہ سے پارٹی کنٹرول نہیں کر سکے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اس وقت بھی کچھ لیڈر میاں نواز شریف کی جگہ لینے کے خواب دیکھنے لگے آج بھی لندن میں بیٹھ کر پارٹی کنٹرول نہیں کی جا سکتی ان کے طویل عرصہ کے لئے لندن جانے سے ایک بار پھر ان کی جگہ لینے والے سر اٹھا سکتے ہیں ۔ میاں شہباز شریف کو وطن واپس آکر جہاں پارٹی کو منظم کرنا چاہیے وہاں انہیں اپوزیشن لیڈر کا کردار موثر طور پر ادا کرنا چاہے بصورت دیگر مسلم لیگ (ن) کے اندر ہونے والی توڑ پھوڑ سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن