مشرق وسطیٰ جنگی شعلوں کی لپیٹ میں کیوں؟

کیا تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہونے جا رہا ہے یا ایران امریکہ ’’میزائل حملے‘‘ ایک پیدا شدہ وقتی صورتحال تھی جو جلد ہی تھم گئی ہے۔ سیاسی و دفاعی ماہرین اور عالمی مبصر و دانشور مختلف پہلوئوں اور زاویوں سے اس صورتحال پر اپنی آراء اور تجزیے پیش کر رہے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور قافلے کے دیگر افراد پر میزائل حملہ ایک طے شدہ پالیسی کے تحت ایک پلانڈ حملہ تھا۔ امریکہ گزشتہ کئی سالوں سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں متضاد پالیسیوں پر عمل پیرا رہا ہے۔ ان تمام پالیسیوں اور امریکی اقدامات پر نظر رکھنے والے دانشور اور سیاسی مبصرین مشرق وسطیٰ کے آئندہ سالوں میں امن اور مستقبل پر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کر رہے تھے۔ امریکہ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور قافلہ کے دیگر افراد پر میزائل حملہ کر کے ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کے ذریعے خطے میں جنگی شعلے بلند کرنے کی ایک منظم کوشش کی ہے۔ امریکہ کو یقین ہے کہ یہ جنگی شعلے بلند ہونے کے بعد اسے اپنی اجارہ داری اور تھانیداری کومضبوط بنانے کاموقع مل سکے گا اور خطہ میں اس کی پالیسیاں از سر نو آگے بڑھ سکیں گی۔ مشرق وسطی میں گزشتہ پانچ سال سے امریکی پالیسیاں ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہیں۔ بطور خاص شام میں امریکہ مکمل طور پر ناکام ہوا ہے۔ روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور اس کے قافلہ پر امریکی میزائل حملہ کے بعد اگلے روز شام کا غیر اعلانیہ ایک ہنگامی دورہ کیا ہے اور شام کے صدر بشارالاسد کے ساتھ تنہائی میں خصوصی ملاقات کی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ روسی صدر ولایمیر یوٹن امریکی میزائل حملے کے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہونے والے اثرات اور مضمرات سے بے خبر نہیں ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی تبدیلی کی بنیادی رکھ دی ہے جو امریکی پالیسیوں کے لیے ضرب کاری ثابت ہوئی ہے۔ سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ روس نے تعلقات کو مضبوط کر کے ایک بڑا سیاسی چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان کے ساتھ بھی روس نے اپنے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات کو ایک نئی جہت دی ہے۔ امریکہ واضح طور پر نظر آنے والی اس ساری ’’سیاسی ڈویلپمنٹ ‘‘ کو اپنے لیے ایک بڑے چیلنج کی شکل میں دیکھ رہا تھا۔ سعودی عرب نے حالیہ دنوں میں اپنی قیادت میں 7 افریقی ممالک پر مشتمل ایک نیا اتحاد اور بلاک تشکیل دیا ہے۔ چین کا ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ عالمی معاشی منصوبہ، پاکستان کے اشتراک سے جاری ’’سی پیک راہداری‘‘ اور گوادر پورٹ کا قیام اور اس کاعنقریب آپریشنل پوزیشن میں آنا، امریکہ اور انڈیا دونوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اس سارے پس منظر پر نظر رکھتے ہوئے امریکہ کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں جنگی شعلے بلند کرنا اور اُن کو ہوا دینا عالمی مبصرین اور تجزیہ کاروں کے خیالات اور آراء کو تقویت دیتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک کثیر الجہتی اور کثیرالقومی جنگ امریکہ کی شدید ضرورت بن گئی ہے۔ افغانستان میں طالبان سے جاری امریکی جنگ میں ’’نیٹو ممالک‘‘ کی اکثریت نے اپنی فوجیں ایک عرصہ سے واپس اپنے ممالک میں بلا لی ہیں اور مالی تعاون میں بھی شدید کمی کر دی ہے۔ اس صورتحال کا ازالہ امریکہ کی نظر میں ایک کثیرالقومی اورکثیر الجہتی جنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ امریکہ نے اس میزائل حملہ کے ذریعے اپنے قریبی پارٹنر انڈیا کو بھرپور فائدہ پہنچایا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے انڈیا اور امریکہ ایک پارٹنر کی حیثیت سے ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے اور فائدہ پہنچانے میں لگے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر انڈیا کے غاصبانہ قبضہ ، انڈین فوجوں کے کشمیری مسلمانوں پروحشیانہ مظالم اور انسانیت کُش جابرانہ اور ظالمانہ کرفیو کیخلاف امریکہ نے آج تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ تجزیہ نگار افغانستان میں جاری خونی جنگ کو روکنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے طالبان امریکہ امن مذاکرات کے مستقبل پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ انڈیا ’’طالبان امریکہ امن مذاکرات‘‘ کا سخت مخالف ہے اور انڈیا ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کو واپس بلائے۔ اس میزائل حملہ کے بعد ’’طالبان اور امریکہ‘‘ کے درمیان طے شدہ مذاکرات کا آگے بڑھنا اور کامیاب ہونا اور امریکی فوجوں کا فوری طور پر افغانستان سے انخلاء بھی ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ دوسرا بڑا فائدہ انڈیا کو فوری طور پر یہ حاصل ہوا ہے کہ نریندر مودی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ متنازعہ شہریت قانون کے خلاف پورے انڈیا میں ہونے والے عوامی احتجاج اور بھارتی عوام پر نریندر مودی حکومت کے مظالم اور پُرتشدد کارروائیوں سے عالمی میڈیا کی توجہ ہٹ گئی ہے۔ تیسرا بڑا فائدہ انڈیا کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے بین الاقوامی توجہ ہٹا کر پہنچایا گیا ہے۔امریکہ میں بعض امریکی دانشور 2017ء سے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کی پیشین گوئیاں کر رہے تھے۔پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم پر تحقیقات کرنے والے بعض دانشور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ عالمی جنگیں اقتصادی اور معاشی پس منظر میں لڑی گئی تھیں۔اس موضوع پر دستیاب لٹریچر سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ امریکہ مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ میں ایک کثیرالقومی بڑی جنگ کا آغاز کر سکتا ہے جس کا پس منظر بھی امریکی معیشت کو مضبوط بنانا اور ڈالر کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہوگا۔ چین کی طرف سے شروع کیا جانے والا ’’ون روڈ ون بیلٹ‘‘ منصوبہ دنیا بھر کے ملکوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ اب تک سینکڑوں ممالک اس منصوبہ کے ساتھ جڑ چکے ہیں۔’’ون روڈ ون بیلٹ‘‘ منصوبہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔’’ون روڈ ون بیلٹ‘‘ منصوبہ کے آپریشنل ہونے کے بعد چینی کرنسی دنیا بھر میں ’’اپ ‘‘ ہو کر چھا جائے گی۔ پوری دنیا میں چینی کرنسی کی ڈیمانڈ بڑھ جائے گی۔ لوگ محفوظ دولت کے طور پر چینی کرنسی کا ارتکاز کریں گے امریکی ماہرین معیشت اور دیگر ادارے اس صورت حال سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ……۔
سی پیک راہداری منصوبہ اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاکستان معاشی لحاظ سے بہت مضبوط ہو سکتا ہے۔پاکستانی کرنسی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے مضبوط ہو گی اور ڈالر کے بے تحاشا دبائو سے نکل کر دنیا کی معیشت میں اپنا منفرد اور مضبوط مقام حاصل کرے گی۔ان ہی خدشات اور خطرات کے پیش نظر امریکہ اور انڈیا مل کر سی پیک منصوبہ اور گوادر پورٹ کے خلاف مشترکہ پالیسی پر گامزن ہیں۔امریکہ گزشتہ کئی سالوں سے مشرق وسطیٰ میں جغرافیائی اور نظریاتی بنیادوں پر علاقوں کی تقسیم اور عوام کی تقسیم کے تناظر میں ایسی پالیسیوں کو ڈویلپ کرنے میں مصروف عمل رہا ہے جس کے نتیجے میں شام میں شدید خون ریزی اور جنگ‘ عراق میں شدید بحران اور خون ریزی یمن سعودی عرب تنازعات اور جنگ کے ماحول کو آگے بڑھنے میں مدد ملی ہے ماضی قریب میں جب سعودی عرب کی آئل ریفائنری اسٹیٹ پر میزائل داغے گئے تو یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے علی الاعلان سعودی آئل ریفائنری اسٹیٹ پر میزائل حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔ لیکن امریکی اداروں نے اپنی تحقیقات کے بعد سعودی عرب کو اور دنیا کو یہ بتایا کہ یہ میزائل حملے یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے نہیں ہوئے تھے۔اس رپورٹ میں واضح اشاروں کے ساتھ ذہن کو ایران کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اس امریکی رپورٹ کے پس منظر میں واضح نظر آرہا ہے کہ امریکہ کیا چاہتا ہے؟حالیہ امریکی میزائل حملے کا فوری جواب ایرانی قیادت نے عراق میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنا کر دے دیا ہے اور ایرانی قیادت کے بقول امریکہ کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا ہے۔ یقیناً ایران نے بڑی ہوشمندی اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے امریکہ میزائل حملے کے جواب اور اپنے اقدامات اور اپنی سٹیٹ منٹس میں سعودی عرب کا کہیں ذکر نہیں کیا۔عراق کے وزیر اعظم کا یہ بیان بھی پوری دنیا کے لئے قابل توجہ ٹھہرا ہے جس میں عراق کے وزیراعظم نے دنیا کو بتایا کہ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی سے میری ملاقات شیڈول تھی اور جنرل قاسم سلیمانی میرے پاس سعودی عرب کے لئے اہم پیغام لا رہے تھے۔ لیکن ملاقات سے قبل ہی جنرل قاسم سلیمانی کو میزائل حملے کا نشانہ بنا دیا گیا۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ماضی قریب میں سعودی عرب اور ایرانی قیادت کے ساتھ طویل ملاقاتیں دونوں ملکوں کو باہم قریب کرنے اور غلط فہمیوں اور کشیدگی کو دور کرنے کی غرض سے ہوئی ہیں ان ملاقاتوں کے بعد واضح طور پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنائو کو کم ہوتے دیکھا گیا ہے۔
قارئین محترم! امریکہ آگے بڑھتا ہے؟ یا ایرانی زوردار جواب کے بعد پیچھے ہٹتا ہے؟ اس کا آنے والے دنوں میں امریکی پالیسیوں سے واضح نقشہ پوری دنیا کے سامنے آجائے گا۔مشرق وسطی میں امریکہ کی طرف سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر میزائل حملہ کے پس منظر میں نومبر2020ء میں امریکہ میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات بھی ہو سکتے ہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان انتخابات میں دوبارہ صدارتی امیدوار ہیں۔
یہودیوں کی ایک بڑی تعداد امریکی شہری کی حیثیت میں ووٹ کاسٹ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکن یہودی اپنے پسندیدہ امید وار کے لئے پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں‘ ذرائع ابلاغ پر یہودی سرمایہ کاروں کا ہولڈ اور اجارہ داری بھی پوری دنیا کے سامنے ہے۔اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی اور تضاد کے ہوتے ہوئے یہودیوں کی ہمدردیاں صدر ٹرمپ کے ساتھ ہوں گی۔

ای پیپر دی نیشن