نئی دہلی‘ لندن (آن لائن + نوائے وقت رپورٹ) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہرزہ سرائی کرتے کہا ہے کہ شہریت کا ترمیمی قانون ان اقلیتوں کے لیے ہے جن پر پاکستان میں مظالم ہوئے اور اب پاکستان کو جواب دینا ہو گا کہ گذشتہ 70 برسوں میں وہاں اقلیتوں پر ظلم کیوں کیا گیا۔ اپنے دورہ مغربی بنگال کے دوسرے دن طلباء سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر شہریت کے ترمیمی قانون پر بی جے پی حکومت کے نام نہاد موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون کسی کی شہریت ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ دینے کے لیے ہے۔ نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ’اتنی وضاحت کے باوجود کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر سی اے اے کے بارے میں مسلسل ابہام پھیلایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اس پر آواز ہمارا نوجوان ہی اٹھا رہا ہے۔ اگر ہم شہریت کے قانون میں یہ ترمیم نہ کرتے تو نہ تو یہ متنازع ہوتا اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا کہ پاکستان میں اقلیتوں پر کیسے مظالم ہوئے۔‘ انھوں نے کہا کہ اب پاکستان کو جواب دینا ہو گا کہ گذشتہ 70 برسوں میں اقلیتوں پر ظلم کیوں کیا گیا؟ ’گاندھی نے جو کہا تھا ہم وہی کر رہے ہیں۔ ہم نے شمال مشرقی انڈیا کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں تاکہ ان کی بنیاد متاثر نہ ہو۔‘ وزیراعظم مودی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ قانون راتوں رات نہیں بنایا۔ یہ قانون شہریت چھیننے کے لیے نہیں بلکہ دینے کے لیے ہے۔ کیا ہمیں انہیں شہریت نہیں دینی چاہیے؟ کیا ہم انھیں مرنے کے لیے پاکستان بھیج دیں؟‘۔ شہریت کے ترمیمی ایکٹ میں 31 دسمبر 2014 سے پہلے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والی چھ اقلیتوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے، لیکن وزیراعظم مودی نے اپنی تقریر میں صرف پاکستان پر تنقید کی۔ انھوں نے بنگلہ دیش اور افغانستان کا نام نہیں لیا۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے کہا ہے کہ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (بنگلہ دیش) کی آزادی اور خودمختاری کے لیے خطرہ ہے۔ کولکتہ کے کئی مقامات پر لوگوں نے وزیراعظم مودی کے دورے کی مخالفت کی۔ کولکتہ کے دھرم تللہ میں مظاہرین بڑی تعداد میں جمع ہوئے۔ زیادہ تر مظاہرین کا تعلق کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔ حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کی طلبہ یونٹ بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ شہریت متنازعہ بھارتی قانون کیخلاف برطانوی اخبار بھی بول پڑا۔ دی ٹائمز کے مطابق مظاہرین پر بے رحمانہ کریک ڈاؤن جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق لکھنو میں پولیس مسلمان مظاہرین پر ٹوٹ پڑی۔ خواتین مظاہرین سے حجاب چھین لئے گئے۔ بھارتی مسلمان کہتے ہیں بھارت ہندو ریاست بن گیا ہے مسلمان دوسرے درجے کے شہری قرار دیئے گئے ہیں۔ بھارتی شہر بنگلور میں بھی متنازعہ کالے قانون کے خلاف شہریوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔ خواتین نے فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کنڑ زبان میں سنا کر سماں باندھ دیا۔ ٹکنالوجی یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم کرشنا را نے کہاکہ کیونکہ فیض پر کتابیں دستیاب نہیں ہیں ۔ مظاہرے میں شریک خواتین اور مردوں نے بھارتی پرچم اور کالے قانون اور مودی حکومت کے خلاف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ بھارت کی کئی زبانوں میں فیض احمد فیض کی نظم مقبول ہے۔ خاتون صحافی نے بھی نظم بھوجپوری ہے۔ زبان میں پڑھ کر سنائی اور کالے قانون کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ شاہین باغ نئی دہلی میں خواتین نے مودی سرکار کو آئینہ دکھا دیا۔ متنازعہ شہریت قانون کے خلاف مسلم خواتین کا شاہین باغ میں 15 روز سے دھرنا جاری ہے۔ خواتین نے شہریت کے کاغذ دکھانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ مودی ہم سے کاغذ مانگنے والے ہوتے کون ہیں؟ شہریت کا ثبوت مانگنے والا پہلے اپنی شہریت کا ثبوت دے متنازعہ قانون ہٹانے تک یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔ ہندو مسلم کو لڑانے کی سازش ہے۔ ایک خاتون مودی حکومت پر غم و غصے کا اظہار کرتے رو پڑی اور کہا کہ کیا ہم بھارت کے شہری نہیں ہمارا دل ٹوٹا ہے بھارت کی آزادی میں ہمارا بھی کردار ہے۔