بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات ، جمہوری روایات کا تسلسل

Jan 13, 2021

ڈاکٹر شاہ نواز تارڑ

وکلاء کی سیاسی سرگرمیاں یوں تو پورا سال ہی جاری رہتی ہیں اور وکلاء برادری عدل کے ایوانوں سے لے کر ملک کے ایوانوں تک ، حتیٰ کہ چوکوں ، چوراہوں میں بھی آئین و قانون کی بالادستی کے لیے کوشاں نظر آتی ہے جہاں آئین و قانون کم ہوتا ہے جبکہ ’’بالادستی‘‘ زیادہ ہوتی ہے تاہم ہر سال اکتوبر ، نومبر، دسمبر اور جنوری میں وکلاء کی سیاسی سرگرمیاں انتہائی عروج پر ہوتی ہیں اکتوبر میں سپریم کورٹ بار کا الیکشن ہوتا ہے ، نومبر ، دسمبر میں تحصیل ، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات کیلئے گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے جو ہر سال جنوری کے دوسرے ہفتے ہوتے ہیں جبکہ ہائیکورٹ بارکے انتخابات فروری کے آخری ہفتے ہوتے ہیں اب کے برس وکلاء کی انتخابی سرگرمیاں کچھ زیادہ ہی پررونق رہیں کیونکہ سپریم کورٹ بار کے انتخابات کے بعد پنجاب بار کونسل کے انتخابات آ گئے (جو ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں ) اسی طرح پنجاب بار کونسل کے انتخابات کے تقریباً ایک ماہ بعد پاکستان بار کونسل کے انتخابات ہوئے (یہ بھی پانچ سال کیلئے ہوتے ہیں) 9 جنوری کو تحصیل اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات کا میدان سجا۔ اگرچہ وکلاء سیاست عام ملکی سیاست سے مختلف ہوتی ہے تاہم بار ایسوسی ایشین ملکی سیاست و سیاسی جماعتوں سے زیادہ جمہوری روایات کی علمبردار ہوتی ہیں یہ مضبوط اور شاندار جمہوری روایات کافی حد تک ترقی یافتہ جمہوری و فلاحی ریاستوں سے مماثلت رکھتی ہیں کیونکہ بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات کیلئے امیدوار میدان میں اتارنے سے قبل اپنے اپنے وکلاء گروپوں اور دھڑوں میں امیدواروں کیلئے مقابلہ اورمشورہ ہوتا ہے جو مضبوط امیدوار ہوتا ہے اس کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔ کئی وکلاء گروپ بعض بڑے لاء چیمبر سے پہنچانے جاتے ہیں جبکہ بعض پروفیشنل وغیرہ کے ناموں سے شناخت بنا لیتے ہیں۔ تحصیل اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنوںکے انتخابات کے فوری بعد اگلے سال کیلئے امیدوار دوڑ دھوپ شروع کر دیتے ہیں ۔ وکلاء کی انتخابی سیاست کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ہر سال تقریباً تقریباً نیا امیدوار ہی میدان میں اتارا جاتا ہے ، ہاں البتہ کسی سابق عہدیدار کی غیر معمولی کارکردگی پر بعض اوقات تحصیل یا ڈسٹرکٹ بار متفقہ طور پر یا کثرت رائے سے ایسے عہدیدار کو اگلے سال کیلئے بھی امیدوار نامزد کر دیتی ہیں۔ ہارنے والے امیدوار کو اکثر اوقات اس کا گروپ یا دھڑا دوبارہ موقع دیتا اور امیدوار نامزد کر دیتا ہے جبکہ ووٹر بھی اس پر ترس کھاتا ہے بار ایسوسی ایشنوں کے صدر ، سیکرٹری کے عہدے بڑے پرکشش، رعب و دبدبے والے اور انتہائی اثر و رسوخ کے حامل ہوتے ہیں اس لیے سیاسی جماعتیں بھی کھل کر حمایت کرتی ہیں اور اپنی اپنی پسند کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہیں۔ اسی طرح بعض سیاسی گھرانے بھی بار ایسوسی ایشن کی عہدیداری اور منصب داری کو اعزاز سمجھتے ہوئے اپنے نونہالوںکو اس میدان میں اتارتے ہیں کیونکہ عدل اور مملکت کے ایوانوں تک جانیوالے تمام راستے انہیں راہداریوں سے منسلک ہوتے ہیں اس لیے بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات میں پوری طاقت اور قوت کامظاہرہ کیا جاتا ہے۔ سیاسی گھرانے اپنے سپوتوں کو بار ایسوسی ایشنوں کی سیاست میں کامیاب کرانے کیلئے بڑے بڑے وکلاء گروپوں کے ہروقت صدقے واری جانے اور انکے اشارہ ابرو پر تن من دھن نچھاور کرنے کو بے تاب رہتے ہیں تاہم وکلاء کی انتخابی سرگرمیاں بھی روایتی سیاست کی طرح ’’بشری خوبیوں‘‘ سے بھرپور ہوتی ہیں اور ووٹرز کے ناز و نخرے برداشت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔ جبکہ برادری ازم بھی وکلا ء سیاست میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے جو انتخابی نتائج پر بھرپور رنگ دکھاتا ہے۔ بار ایسوسی ایشن کی سیاست کا ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ وکلاء اپنے اپنے امیدواروں کے بیج لگائے ہوئے بغیر کسی نفرت ، تعصب کے بار روم میں ایک ہی جگہ آپس میں گھلے ملے رہتے ہیں اسی طرح الیکشن کے دن بھی اپنے اپنے امیدوار کیلئے ووٹ ضرور مانگ رہے ہوتے ہیں لیکن سیاسی اختلاف رائے پر شدت اور دشمنی کا رنگ نہیں چڑھنے دیتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ، دو دن کی تھکاوٹ اترنے اور صدمے سے نکلنے کے بعد ہارنے والا امیدوار پھول لے کر جیتنے والے کو مبارکباد دینے کیلئے اسکے چیمبر میں پہنچ جاتا ہے۔ وکلاء سیاست انتقامی رویوں اور متکبرانہ لب و لہجے سے تقریباً پاک ہی ہوتی ہے تاہم بعض اداروں اور محکموں کو بار عہدیداروں کے تیور دیکھ کر اپنے چال چلن درست کرنا پڑتے ہیں۔ وکلاء عموماً ’’ہلّے گلّ‘‘ے والی قیادت کوہی پسند اور منتخب کرتے ہیں لیکن دلائل اور براہین کے ساتھ بات کرنیوالوں کے ہاتھوںکا ’’بولنا‘‘ اچھا نہیں لگتا۔ وکلاء قیادت ذمہ داریاں بھرپور نبھاتی ہے اوراپنے پیشہ ورانہ فرائض سے غافل نہیں ہوتی تاہم اب کے بار تحصیل ، ڈسٹرکٹ سے لیکر ، ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنوں تک اور پنجاب بار کونسل سے لیکر پاکستان بار کونسل تک تمام منتخب قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جعلی ڈگری ہولڈرزکیخلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ اس سلسلے میں وکلاء کے سرخیل ، نومنتخب ممبر پاکستان بار کونسل چودھری اعظم نذیر تارڑ ، کالے کوٹ کے تحفظ کیلئے ہمہ وقت متحرک ، ممبر پنجاب بار کونسل چودھری عبداللطیف ہنجرا سمیت پوری وکلاء قیادت کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔کیونکہ وکلاء برادری اپنی قیادت سے یہ توقع رکھتی ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی اورکالے کوٹ کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور …؎
شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو 
٭…٭…٭

مزیدخبریں