میرے بچپن کے دن!

 آج ایک لمبے عرصے سے اپنے بچوں کو سکول کالج کی چھٹیاں انجوائے کرتے دیکھتا ہوں تو حسداوررشک کی ملی جلی کیفیت میں’’کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے ’’ یہ نامرادکورونا کی وبا اس وقت کہاں تھی جب ہم بچپن میں گھر سے تیار ہوکر بلاناغہ محض اپنے استادوں کی پھینٹی کھانے سکول جایا کرتے تھے پڑھنا پڑھانا تو محض ایک بہانہ تھا،وگرنہ کیسی پڑھائی اور کہاں کی پڑھائی‘‘۔اس دور میں سکول سے چھٹیوں کیلئے خود کو پیٹ درد ،بخار، سکول بس کی اچانک خرابی اور استادوں کی وفات سے بھارت کے ساتھ جنگ تک کی کیا کیا دعائیں تھیں جو ہم نے نہیں مانگی تھیںمگر سال بھر میں ایک آدھ بار پیٹ میں درد،بخار یا سکول بس کی خرابی کے سوا حرام ہے جو کبھی ہماری اصل’’آہ‘‘ یا ’’دعا ‘‘قبول ہوئی ہو ۔ تب ہم دل آزردہ ہوکر اکثرسوچتے تھے’’ پتا نہیں وہ کون سے خوش قسمت لوگ ہیں جن کے لاکھوں کروڑوںکے پرائز بانڈ نکلتے ہیں‘‘ ۔بقول شاعر ’’ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا،اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا‘‘۔خدا جانے اس نامراد ’’وصالِ یار‘‘ کو ہم سے کیا چڑ ہے کہ بچپن سے پچپن کی عمرمیں آگئے ہیںمگر ہمارے ساتھ اس نے آج بھی پوری طرح’’اڑی‘‘ لگائی ہوئی ہے۔ آپ وقت کے پہیے کو اُلٹا گھما کر آج ہمارا بچپن واپس لاکے ہمیں اُسی سکول میں داخل کروادیں جہاں سے ہم نے مڈل تک ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ حاصل کی تھی ہم پورے وثوق سے کہتے ہیںکہ کرونا کا مرض ختم ہو یا نہ ہو، ہم رہیں یا نہ رہیںنہ ہمارا سکول بند ہوگا نہ ہمیں چھٹیاں ملیں گی۔ حالانکہ جس دور کی ہم بات کر رہے ہیںسکولوں میں چھٹیوں کے حوالے سے وہ ایسا سنہری اور آئیڈیل دور تھا جب اچھے اچھے سکولوں میں بھی دس بارہ میل کے علاقے میں ہلکی سی بارش یا کسی فوتگی کی اطلاع پر سکول میں چھٹی کی گھنٹی بج جاتی تھی ۔ ملاحظہ کریں کہ اس ’’سستے‘‘ زمانے میں بھی واحد ایک ہمارا سکول تھا جہاں سوائے طالبعلم کی اپنی یا استاد کی وفات کے کسی بچے کیلئے سکول سے چھٹی کرنا تو در کنار چھٹی کا سوچنا بھی ایسا قابل تعزیر جرم تھا جس پر ’’ ملزم‘‘ کو چَھٹی کا ہی نہیں’ چُھٹی‘‘ کا دودھ بھی یاد دلا دیا جاتا تھا۔ ہم آج کی نہیںگذشتہ صدی میں اَسی کی دِہائی کی بات کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر آپ کیلئے تو اَسی کی دِہائی ہی ہے لیکن سکول میں ہمارے لئے خصوصی ہنگامہ پرور حالات کی وجہ سے ہمارے لئے یہ ’ اَسی کی دُہائی‘‘ تھی۔یہ اس دور کی بات ہے جب ہم اپنی بے سری آواز میں لتا کا گانا’’ میرا پردیسی نہ آیا‘‘ گانے کی پاداش میں ابرار ندیم کی بجائے سکول میں مروجہ روایات کے مطابق ’’چھم چھم روئی‘‘ ہوتے تھے اوراپنے دیگر ہم جماعت وسیمو چبڑ،ناصر چھانگا،طاہر گٹکا،شاہد تیلا،بشیرا اِن ٹربل،غفارا مینگنی اوروقارو جنرل جیسے دوستوں کے ہمراہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کے ’’چکر‘‘ میں گھر والوں کے جور زبردستی پر روزانہ مرغا بننے سکول جایا کرتے تھے۔ جس دن ہمیں سکول میں استادوں سے پھینٹی نہیں لگتی تھی اس رات بدن ایک عجیب بے چینی سے ٹوٹتارہتا تھا ممکن ہے دوسری طرف ہمارے استادوں کو بھی یوں محسوس ہوتا ہو جیسے اُس دن اُنکی بھی ’’دیہاڑی‘‘ نہ لگی ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ’’سوٹیاں‘‘ جن سے ہم سب بچوں کی دھواں دھار ’’کلاس‘‘ ہوتی تھی اُن کی فراہمی کا انتظام بھی استادوں نے ہم بچوں کے سپرد کررکھا تھا۔ جسے ہم سب استادوں کا حکم اور فرض سمجھ کرپوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کرتے اور اپنی خاطر مدارت کیلئے درختوں سے خوب مضبوط اور موٹی موٹی سوٹیاں کاٹ کر لاتے تھے۔ آج بچپن کے دوستوں کے ہمراہ شوخیوں اور شرارتوں سے بھر پور سکول کے اُس ہنگامہ خیززمانے کو گزرے ایک لمبا عرصہ ہوگیا ہے ۔ انتہائی قلیل تنخواہ کے عوض والدین جیسے احساس اورجذبے کے ساتھ پورے جی جان سے ہماری تعلیم و تربیت کرنے والے ہمارے استادوں میں سے سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کر اب اکثر استاداللہ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے ہیں۔گو اپنے استادوں کی اَن تھک محنت کے باوجودآج ہم اور ہمارے اکثر دوست اپنی نالائقیوں کے باعث دنیاداری کے تقاضوں کے عین مطابق ایک بڑے افسر مشہورصحافی،کامیاب تاجر اور اہم سیاستدان تو نہ بن سکے۔ لیکن الحمدللہ ہمارے استادوںنے جس خلوص اور نیک نیتی سے تعلیم کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے کیلئے ہماری تربیت کی اورہمارے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے پیار،محبت ،قربانی، ہمدردی ،برداشت اور اچھائی کی شمع جلائی وہ اتنے برس گزرنے کے بعد جھوٹ،فریب اور مکر کے اس معاشرے میں آج بھی پوری طرح ہمارے سینوں میںروشن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی تنہائی میں بچپن کے دوستوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور سبق یاد نہ کرنے پر قابل احترام اساتذہ ملک افتخار صاحب ، عبدالرزاق صاحب، قاری یعقوب شاکر صاحب اور ظفر صاحب کی پھینٹی یاد آتی ہے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور دل سے بے اختیار ان استادوں کیلئے دعا نکلتی ہے’’یااللہ ہمارے استادوں کی خیر ہو‘‘۔

ای پیپر دی نیشن