تاریخ کی درستی 

بات پُرانی ہو چکی ہے مگر تاریخ کی درستی ضروری ہے۔ لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پختونخوا پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا تھا کہ لاہور انگزیز سامراج کا حصہ رہا۔ لاہوریوں نے ہندوؤں اور سکھوں سے ملکر انگریز کا ساتھ دیا۔ لاہوریوںنے انگریز کے ساتھ مل کر افغان سرزمین پر قبضے کی کوشش کی۔ مجھے دکھ ہے، لاہوریوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ محمود خان اچکزئی کی اس تقریر کے بعد وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا کہ محمود خان اچکزئی پاکستان کے مخالف ہیں۔ بلوچستان میں محسن داوڑ کا داخلہ بند ہے۔ پنجاب میں محمود اچکزئی کا داخلہ بند کر دینا چاہئیے۔ محمود اچکزئی ہر جگہ انتشار کی بات کرتے ہیں۔ اصل میں وہ مشن پر ہیں۔ محمود اچکزئی نسل در نسل پاکستان کے خلاف ہیں۔ انھیں لاہور کی تاریخ کی اے بی سی کا بھی پتا نہیں۔ کتنے پنجابی اور لاہوری ہیں، جنھوں نے اس سرزمین کو خون دیا۔ قارئین! آپ کو یاد ہو گا کہ محمود اچکزئی نے کوئٹہ جلسہ میں اردو زبان کے بارے میں نازیبا جملے کہے تھے۔ محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی قبل از تقسیم بلوچستان کانگریس کے سربراہ تھے۔ سرزمین پنجاب نے ایسے بے شمار عظیم بیٹوں کو جنم دیا ہے جنھوں نے تاریخ کے اورا ق کو حریت پسندی اور جرأت و بہادری کی داستانیں عطا کی ہیں۔ ان میں رائے احمد خان کھرل اور بھی شامل ہیں۔ رائے احمد خان کھرل ساہیوال میں بنگلہ گو گیرہ کے قریب ایک گاؤں جھامرہ میں 1785ء میں پیدا ہوا۔  26 جولائی 1857ء کی رات رائے احمد خان کھرل نے گو گیرہ کی جیل پر دھاوا بول کر تمام قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ رائے احمد خان کھرل موقع سے فرار ہو گیا اور گوگیرہ سے کچھ میل کے فاصلے پر گشکوری کے جنگل میں جا چھپا۔ منٹگمری گزیٹیر لکھتا ہے کہ ’’احمد خان ایک قد آور، بہادر، ذہین اور حیرت انگیز شخص تھا جس کی قیادت میں گوگیرہ عوام انگریز کے خلاف جمع ہو گئے تھے۔ یہ ڈسٹرکٹ منٹگمری کا ہیڈ کوارٹر تھا جس میں پاکپتن، ساھیوال اور اوکاڑہ کے علاقے شامل تھے۔ Cave Browne کے مطابق معرکہ گشکوری میں تین سے پانچ ہزار لوگ شامل تھے۔ لاہور سے ملتان تک سوا لاکھ ’’باغی‘‘ سرگرم عمل تھے۔ انگریز فوجیں اس علاقے میں پھیلی ہوئی تھیں جو مجاہدین کی تلاش میں ہر گاؤں جلاتی جا رہی تھیں۔ مجاہدین اچانک نمودار ہو تے، ان پر حملے کرتے اور چھپ جاتے۔ مجاہدین کے پاس نیزے بھالے، تلواریں اور چند سو بندوقیں بھی موجود تھیں۔ انگریزوں کا زیادہ نقصان اس وقت شروع ہوا جب مرنے والی فوج کی بندوقیں اور اسلحہ بھی مجاہدین کے ہاتھ لگنا شروع ہوا۔ دست بدست لڑائی میں مجاہدین بھی شہید ہوئے لیکن رائے صاحب کے علاوہ کوئی مجاہد انگریز کی گولی سے شہید نہیں ہوا۔ اس وسیع و عریض علاقے میں انگریزی فوج کی تین ہزار لاشیں اٹھائی گئی تھیں۔ 21 ستمبر 1857ء کوگشکوری کی جنگ رائے کھرل کی شہادت کے ساتھ ختم ہو گئی۔ رائے صاحب اپنی گھوڑی ’’ساوی‘‘ پر چڑھ کر لڑتے رہے۔ 1776ء میں رائے نتھو کے گھر پیدا ہونے والا یہ لعل 81 سال کی عمر میں انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا کر ایمان افروز شان کیساتھ نماز ادا کرتے ہوئے اس دنیا سے چلا گیا۔ انگریزوں نے رائے کھرل کا سر چھ دن تک نیزے پر لٹکائے رکھا۔وہ پنجاب کی مقامی شاعری کے ڈھولوں میں ایک افسانوی کردار بن چکا ہے جسے مختلف شاعروں نے تحریر کیا اورلوگوں نے گایا ہے۔ رائے کھرل وہ شخص تھا جو تاحیات انگریزوں کے سامنے سرنگوں نہ ہوا۔ ایک دوہڑا ہے:۔؎ 
رائے احمد آکھے جمنا تے مر ونجنا 
کنگن اے کچی ونگ دا 
آکھے لڑ ساں نال انگریز دے 
جیویں بلدی شمع تے جوش پتنگ دا 
دادا پھوگی کے مطابق رائے احمد کھرل کہتے تھے۔ زندگی کسی مقصد پر قربان کرنی چاہئیے۔ میں بھی انگریز کے ساتھ ایک دن ایسے بھڑ جاؤں گا جیسے شمع پر پروانہ جوش مارتا ہے۔ بھگت سنگھ ایک سندھو جٹ سردار کشن سنگھ کے گھر27 ستمبر 1907ء کو چک نمبر 105 بنگلہ تحصیل جڑانوالا ضلع لائلپور میں پیدا ہوا۔ ان دنوں یہ علاقہ کسانوں کی بغاوت کا مرکز بنا ہوا تھا۔بھگت سنگھ قیدا ہوا اور اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ پھانسی لگنے سے تین روز قبل بھگت سنگھ، راج گورو اور سکھدیو نے گورنرپنجاب کو خط لکھا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ان کو پھانسی دینے کے بجائے گولی مار دی جائے کیونکہ وہ برطانوی سامراج کیخلاف جنگ لڑتے ہوئے ثابت کیے گئے ھیں۔ ہم مجرم نہیں بلکہ جنگی قیدی ہیں۔ مگر انکی یہ بات تسلیم نہ کی گئی اور 23 مارچ 1931ء کو جلاد نے بھگت سنگھ، راجگورو اور سکھدیو کولاہور شادمان کے علاقے میں پھانسی دیکر ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دے دی۔ راتوں رات ان کی لاشیں فیروزپور سے ستلج دریا کے کنارے جلا کر دریا میں پھینک دی گئیں۔ بھگت سنگھ بارے کے میں بنگال اور پنجاب میں کتابیں شائع ہوئیں، جنھیں 1898ء میںفوجداری قانون کی دفعہ 99 کے تحت ضبط کر لیا گیا۔ پھانسی کے وقت بھگت سنگھ کی عمر 23 سال پانچ مہینے اور 27 دن تھی۔ 

ای پیپر دی نیشن