سر بہ سر تصادم : راستہ دو راستہ لو!

یک رویہ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں ایک دوسرے کو کرا س کرتے وقت راستہ نہ دیں تو آمنے سامنے ٹکرا جائیں،ایسے حادثوں کو سر بہ سر تصاد م بھی کہا جاتا ہے ۔ایسی صورت میں ٹکرانے والی گاڑیاں تباہ اور مسافر زخمی یا ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ تاہم ڈرائیور ضدی یا شوریدہ سر نہ ہوں، تو اپنی اپنی گاڑیوں کو ، جس حد تک ممکن ہو سائیڈ پر کر لیتے ہیں۔یوں طرفین کا سفر، عافیت سے طے ہو جاتا ہے، اور دونوں اپنی اپنی منزل پربہ سلامت پہنچ جاتے ہیں۔باالفاظ دیگر عافیت کی نعمت اُن کا مقدر ہی بنتی ہے جو دوسروں کو راستہ دینے پر بہ خوشی آمادہ ہو جاتے ہیں ۔منزل اُنہیں ہی نصیب ہوتی ہے ، جوراستہ دو، راستہ لو کی افادیت سے آگاہ ہوں یعنی سڑک کو ذاتی ملکیت نہ سمجھیں اور اس پر دوسروں کا بھی حق تسلیم کریں۔
سربہ سر تصادم سے بچنا ہی دانائی ہے۔زندگی کے میدان کار زارمیں بھی اس قسم کے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔راستہ دو راستہ لو پرامن سفرکی کلید ہے۔ان دنوں ملکی سیاست بھی تنگ سڑک کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ فریقین، ایک دوسرے کو راہ نہ دینے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر یہی رویے رہے  توانا کے اسیر ناک کو کٹنے سے تو شائد بچالیں لیکن آئین جمہوریت اور معیشت کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔اپوزیشن کہتی ہے مذاکرات کا وقت گزر گیااب دمادم مست قلندر ہو گا، استعفے دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے کہا جا ر ہا ہے کہ بات چیت پر تیار ہیں،لیکن این آر او نہیں دیا جائے گا۔جواب آتا ہے،این آر او مانگنے والوں کا نام بتائیں ۔ عام آدمی بھی این آر او مانگنے والوں کا نام جاننے کامشتاق ہے ۔اگر نام نہیں بتائے جائیں گے تو عوام کو  ناانصافی ہو گی، ویسے بھی ’’چوروں اور ڈاکوئوں ‘‘ کو بے نقاب کرنے کا اس سے اچھا موقعہ اور کوئی نہیں ہوگا۔
کرپشن لوٹ مار یا چھینا جھپٹی کم و پیش ہر ملک میں پائی جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ چھوٹی موٹی بدعنوانیوں کی خبریں تو سکنڈ ے نیوین ملکوں سے بھی آتی رہتی ہیں لیکن کسی ملک نے بھی ان برائیوں کو قومی بیانیہ نہیں بنایا۔بد قسمتی سے اس حوالے سے بیانیئے نے وطن عزیز کو دُنیا بھر میں بدنام اورسرمایہ کار کو بدکایا ہے۔مزید ستم یہ کہ کرپشن اور لوٹ مار کے انسداد کی کوششیں انتقامی رنگ اختیار کر گئی ہیں۔نوے نوے دن کے ریمانڈ اور فرد جرم عائدکئے بغیر گرفتاریاں اور مہینوں کی قیدوبند نے انتقام اور ذاتی عداوت کے تاثر کو  مزید پختہ کر دیا ہے۔پانامالیکس میں دُنیا بھر سے نام آئے۔ پڑوس میں بھارت سے بھی کئی نام آئے ، لیکن اس سے اس طرح کہیں بھی نہیں نبٹا گیا۔جبکہ پاکستان میں اس حوالے سے تفریق وامتیاز کے مظاہرنے اچھے کام کو بھی مشکوک بنا دیا۔بتایا جاتا ہے کہ احتسابی ادارے نے کئی سوارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے لیکن یہ کون بتائے گا کہ کارروائی کے لئے اختیار کئے گئے طریقے سے ملک کا نام کتنا روشن ہوا، اور قومی یک جہتی کو کتنا نقصان پہنچا ۔کرپشن کی دولت کی ’’وصولی‘‘ نے جو نفرت پیدا کی وہ قوم کو کتنے میں پڑی ، کا ش یہ بھی جان لیا جائے کہ یہ سودا سستارہا یا مہنگا؟ہر قسم کی کرپشن ، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری سنگین قومی جرم ہیں لیکن عام آدمی یعنی ووٹروں کایہ مسئلہ نہیں اگر مسئلہ ہو تا تو پی ڈی ایم کے جلسوں میں کوئی نہ آتا۔عوام جس کرپشن اور رشوت خوری سے نالاں ہیں وہ آج بھی موجود ہے کسی بھی محکمے سے واسطہ پڑ جائے تو فائل کو چلانے کے لئے گریس یا پیسہ لگانا پڑتا ہے۔تعمیرات کے ٹھیکوں میں بدعنوانیاں ترقی کی راہ روکے کھڑی ہیں۔
صدر ایوب کے دور میں ترقی کی مد میں غیر ملکی امداد آئی تو حکومت نے یہ رقوم ایسے لو گوں کی مدد/قرض کے طور پر دیں جو صنعتیں لگا اور چلا سکیں ۔چنانچہ پاکستان میں پانچ سالہ منصوبہ بندی کی طرح پڑی جس کے تحت ملک میں ٹیکسٹائل ، شوگر ، فرٹیلائزر اور فولاد سازی کی صنعتیں لگنا شروع ہو گئیں۔ملک ترقی کی راہ پر چل نکلا۔اس منصوبہ بندی کی دُنیا بھر میں تعریف ہوئی اور کئی ملکوں نے پاکستان کی تقلید کی خصوصاً جنوبی کوریا اور چین نے ۔
صنعت و زراعت کے شعبوں میں ترقی سے لاکھوں افراد کو روزگار مِلا۔ ملک بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ کر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہونے کے قریب تھاکہ نفرت کی سیاست نے ’’22 خاندانوں‘‘ کا فسانہ گھڑ لیا ۔ایوب خاں کے خلاف تحریک چلی اور وہ مستعفی ہو گئے ۔ اقتدار یحییٰ خاں اور پھر بھٹو مرحوم کے پاس چلاگیا۔اس اُتھل پتھل کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ دار بُری طرح خائف ہوگیا۔بھٹو صاحب کے روٹی ، کپڑے اور مکان کے نعرے پر عمل شروع ہوا تو فیکٹریاں اور کارخانے بند ہونے لگے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔سرمایہ دار نے اپنا بچا کچا سرما یہ باہرلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ملکی ترقی کی شناخت ادارے سٹیل مل کراچی، پی آئی اے اور ریلوے تباہ ہو گئے ۔ سرمایہ دار کے خلاف اس قدر نفرت پھیلائی گئی۔کہ دولت مندی سنگین جرم اور گناہ کبیرہ کے مترادف قرار پائی۔ملکی ترقی کو ریورس گیئر لگ گیا۔وہ دن گیا اور آج کا آیا سرمایہ کا ر کا اعتماد بحال نہیں ہو سکا۔انہی وجوہات کے باعث عرب سرمایہ ، پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت پہنچتا رہا۔90کے عشرے تک ترقی کی دوڑ میں کہیںنہ آنے والابھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے ۔آج عرب سرزمین پر بت کدے بن رہے ہیںاور ایران ایسے برادر ہمسایہ اسلامی ملک کا صدر اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھارت کو برادر ملک قرار دے رہا ہے۔ نوبت بہ ایں جارسید ، کہ ہمارا ایک محسن ملک بھارت کے آرمی چیف کو دورے کی دعوت دیتا ہے۔   
وقت آگیا ہے کہ جمہوری اقدار کی سختی سے پابندی کی جائے ۔جمہوریت میں احتجاج اور مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیںکہ جمہوریت میں دروازوں کا سرے سے کوئی وجودہی نہیں ہوتا۔ فرض شناس ٹریفک وارڈن کی طرح سڑک پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنا حزب اقتدار کا اولین فریضہ ہے۔اس اندیشے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ مذاکرات کی صورت میں اپوزیشن این آر او مانگے گی۔ہوش مندی یہ ہے کہ اپوزیشن کو مذاکرات کی میزپر لانے کے لئے انتقامی مقدمات ختم کرنا پڑتے ہیں ۔یوں آئین کی بالادستی بھی قائم رہے گی اور حکومت کی پانچ سال کی مدت بھی بہ آسانی پوری ہوجائے گی ۔ ماحول پرسکون ہوگا تو ملک ترقی کرے گا، خوشحالی آئے گی۔

ای پیپر دی نیشن