پنجاب بھر کے مختلف محکموں میں میرٹ پر تعیناتی کے لیے پنجاب پبلک سروس کمیشن کاقیام عمل میں لایا گیا۔یہ کمیشن 1937ء سے مقابلے کے امتحانا ت اور انٹرویو کے ذریعے محنتی اور قابل افسران کا انتخاب کر کے انھیں صوبائی حکومت کے سپر دکررہاہے۔ میرٹ اور شفافیت کے حوالے سے اس کمیشن کی ایک نہایت جاندار تاریخ اورشاندار روایت رہی ہے۔ بالخصوص ماضی قریب میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے نہایت دیانت دار اور قابل اراکین نے اسے ایک مثالی ادارہ بنا دیاتھا۔ ان کی شبانہ روز مساعی سے کمیشن کی استعداد ِ کار میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے ہر لحاظ سے میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جن کے نتیجے میں سرکاری ملازمت کے حصول کیلئے لاکھوں نوجوانوں کا اس ادارے پر اندھا اعتماد قائم ہوگیا۔ لیکن حالیہ دنوں میں موجودہ سٹاف کی غفلت اور کسالت کے سبب بدنامی کا ایک ایسا دھبہ کمیشن کے ماتھے پرلگا ہے جس نے نہ صرف پنجاب پبلک سروس کمیشن کی ساکھ کو مجروح کیا ہے بلکہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لاکھوں نوجوانوں کوبھی شدیدمایوس کیا ہے۔
چند روز سے سوشل میڈیا پریہ خبر گردش کر رہی تھی کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے کچھ افراد لاکھوں روپے کے عوض امتحانی پرچے قبل ازوقت آشکار کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں نا اہل اور نالائق امیدواران مسلسل کامیاب ہورہے ہیں ۔ طلباء نے لاہور، فیصل آباد ، ملتان اور بہاولپور میں اس مافیا کیخلاف احتجاج بھی کیا۔ کمیشن کی موجودہ انتظامیہ اس احتجاج سے ٹس سے مس نہ ہوئی اور تحقیقات کرنے کے بجائے آوازِ خلق کو اپنے ادارے کیخلاف ایک سازش قرار دے دیا۔ لیکن اینٹی کرپشن پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل محمد گوہر نفیس نے اس معاملے کا بغور جائزہ لینے کے بعد اپنے تئیں اس کی آزادانہ انکوائری کا آغازکردیا اور ا س معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے ڈائریکٹر ویجیلینس کی سربراہی میں تین رُکنی ٹیم تشکیل دیدی۔ اینٹی کرپشن کے افسران نے نہایت جاں فشانی سے اس پر کام کیااور بالآخر ایک کامیاب حکمت عملی کے نتیجے میں پرچے لیک کرنے والے گروہ میں سے چار افراد کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ مورخہ 2 جنوری کو پنجاب بھر کے ایک لاکھ سے زائد طلباء و طالبات نے تحصیلدار کا امتحان دینا تھا جو کہ شدید سردی اور دُھند میں دور دراز کے دیہی علاقوں سے سفر کر کے لاہور، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں پہنچے ۔ لیکن امتحانی مراکز میں پہنچنے کے بعدانھیں معلوم ہوا کہ امتحان ملتوی کردیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر ویجیلنس عبد السلام عارف نے ترجمان اینٹی کرپشن پنجاب کے ہمراہ انکشافات سے بھرپور پریس کانفرنس میں بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا کہ کس طرح یہ مافیا کروڑوں روپے کے عوض امتحانی پرچے بیچنے کا دھندہ کرتا ہے۔ ملزمان میں طلباء ، سول سیکرٹریٹ اور پنجاب پبلک سروس کمیشن کے کچھ ملازمین شامل ہیں جو تحصیلدار کا ایک پیپردس سے پندرہ لاکھ روپے میں فروخت کر رہے تھے۔ دوران تفتیش ملزمان نے ڈپٹی اکاؤنٹینٹ آفیسر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ، انسپکٹر اینٹی کرپشن وغیرہ کے پرچے لیک کرنے کا اعتراف بھی کیا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا! یہاں بے حد دکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کالی بھیڑوں نے تعلیم جیسے مقدس شعبے کو بھی نہیں بخشااور گزشتہ ماہ ہونے والے لیکچررز کے کچھ پرچے بھی فروخت کیے ۔ اس سارے سکینڈل نے جہاں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے سٹاف کی سنگین غفلت اور کسالت کو طشت از بام کیا ہے ، وہیں اینٹی کرپشن پنجاب کی شاندار کارکردگی کو بھی نمایاں کیا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس پورے معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور ایک پانچ رُکنی ٹیم بھی تشکیل دی ہے جو کہ نہایت قابلِ ستائش اور حوصلہ افزا بات ہے ۔ ہمیں قوی امید رکھنی چاہیے کہ وزیر اعظم پاکستان کے ویژن کے مطابق اس طر ح کے ناسور ہر شعبے سے پکڑے جائیں گے اور کرپشن کے خلاف جہاد جاری رہے گا۔ آخر میں میرٹ اور شفافیت کی بالا دستی کیلئے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں :
۱) اس سارے اسکینڈل کی آزادانہ اور مکمل جانچ پڑتال کرنے کے بعد تمام ذمہ داران کا تعین انتہائی ضروری ہے۔ ۲)صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ڈیٹا انٹری آپریٹر اپنی USB میں پیپر منتقل کر لیتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس پر کوئی چیک کیوں نہیں رکھا جارہا تھا؟ اگر اینٹی کرپشن پنجاب حرکت میں نہ آتا تو یہ سلسلہ کب تک چلتا رہتا؟ یہ دیکھنا چاہییے کہ اس ڈیٹاانٹری آپریٹر کو اتنی کھلی چھوٹ کس کی ایماء پر تھی۔ تمام ملوث کرداروں کا تعین ناگزیر ہے۔۳)ذمہ داران کے تعین کے بعد اس گھناؤنے فعل میں ملوث تمام افراد کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا بھی دی جائے ۔ ۴)دیکھا جائے کہ پیپر بیچنے میں ایک ہی گروہ ملوث رہا ہے یا اسکے علاوہ بھی کچھ مافیاز سرگرمِ عمل ہیں؟ ۵) اگر کمیشن کی ناک تلے لاہور جیسے بڑے شہر میں یہ دھندہ عروج پہ تھا تو دور دراز کے علاقوں میں جو امتحانی مراکز بنتے ہیں ، وہاں نقل اور چوری کی روک تھا م کیوں کر ہوتی ہوگی؟ ۶)جب تک صورتحال واضح نہیں ہوجاتی ،میرٹ اور شفافیت کے حوالے سے ہر طرح کی تسلی نہیں کر لی جاتی ، کمیشن کو موجودہ تمام امتحانات ملتوی کر دینے چاہییں ۔
۷) تحصیلدار جیسی اہم آسامی کیلئے صرف معروضی پرچے کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب درست نہیں ہے ۔ معروضی امتحان کے بعد ہرآسامی پر دس امیدواروں کا انتخاب کیا جائے۔ یعنی کل اگر 80آسامیاں ہیں تو میرٹ پر آنیوالے800امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیاجائے اور پھر ان کا تحریری امتحان بھی لیا جائے۔ یہ تحریری امتحانPMS کی طرز پر اردو اور انگریزی کے دو پرچوں پر مشتمل ہوسکتا ہے یا جیسے کمیشن کو بہتر لگے، لیکن امیدواروں کی تحریری صلاحیتوں کا جائزہ لیاجانا انتہائی ضروری ہے۔ ۸)ضروری نہیں کہ جو طالب علم ہزاروں سوالات زبانی رٹ سکے ، وہ تخلیقی ذہن بھی رکھتا ہو۔ پیشہ وارانہ زندگی میں درپیش چیلنجز سے عُہدہ برآہونے کیلئے تخلیقی صلاحیتیں ہی کام آتی ہیں کمیشن کے موجودہ معروضی سوالات پر مشتمل نظام کے ذریعے صرف رٹاسسٹم کی پیداوار ہی سامنے آسکتی۔ لہٰذا گریڈ۔17 کی تمام آسامیوں کیلئے امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرنے کے بعد انکی تحریری اور تخلیقی صلاحیتوں کا امتحان ضرور ہونا چاہیے۔۹)پنجاب پبلک سروس کمیشن کو ایک دن میں تین پرچے لینے کے بجائے دو پرچوں پر ہی اکتفاء کرنا چاہیے تاکہ معیار پر کوئی سمجھوتا نہ ہوسکے ۔ ۱۰) امتحانی نظام کو مکمل پردۂ اخفاء میں رکھنے کیلئے حساس اداروں کی خدمات لی جائیں اور جہاں بھی کوئی شک گزرے ، سارا امتحانی عمل روک کر صورتحال کی فرانزک انکوائری کرائی جائے ۔
وزیر اعظم پاکستان کے ویژن کے مطابق شفافیت اور احتساب کو یقینی بنا کر ہی نئے پاکستان کی تشکیل و تکمیل کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ (ختم شد)