براڈ شیٹ ایل ایل سی نے آخر کار قومی احتساب بیورو (NAB) کے خلاف معاوضہ کی رقم کی وصولی کا مقدمہ جیت لیا۔ بین الاقوامی ثالثی کی لندن عدالت London Court of International Arbitration (LCIA) نے 17 دسمبر 2020ء کو حکم دیا کہ حکومت پاکستان فیصلہ کے 14 دن کے اندر 28,706,533.33 ڈالر رقم براڈ شیٹ ایل ایل سی کو ادا کرے۔ اس رقم میں 17 ملین ڈالر معاوضہ،3 ملین ڈالر مقدمہ کے اخراجات اور باقی ماندہ سود کی ادائیگی شامل ہے۔براڈ شیٹ ایل ایل سی اور قومی احتساب بیورو کے درمیان مقدمہ انتہائی دلچسپ پس منظر رکھتا ہے۔ قومی احتساب بیورو (NAB) نے 20 جون 2000 میں براڈ شیٹ ایل ایل سی سے معاہدہ کیا کہ پاکستانیوں کی بیرون ملک غیر قانونی رقوم کا پتہ لگائے۔ یہ معاہدہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہوا جس کی باقاعدہ منظوری وفاقی وزارت قانون و انصاف نے دی تھی اور اس معاہدہ کیلئے جنرل (ر) پرویز مشرف سے باقاعدہ منظوری حاصل کی گئی تھی۔ اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ براڈ شیٹ ایل ایل سی جو غیر قانونی رقوم اور جائیدادوں کا سراغ لگائے گی اس کا 20% کمیشن براڈ شیٹ ایل ایل سی کو ادا کیا جائیگا۔
براڈ شیٹ ایل ایل سی کے مطابق 200 افراد کے لگ بھگ فہرست موجود تھی جن کے غیر ملکی غیر قانونی رقوم اور جائیدادوں کا سراغ لگانا تھا۔ اس طرح براڈ شیٹ ایل ایل سی نے پاکستانیوں کے غیر قانونی ، غیر ملکی اثاثہ جات کا سراغ لگانا شروع کردیا تھا۔ ان میں قابل ذکر شخصیات آفتاب شیر پاؤ (سابقہ وزیر داخلہ و سابقہ وزیر اعلیٰ صوبہ خیبر پختونخواہ)، ایڈمرل (ر) منصور الحق و پارٹنر، لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی اکبر، سجن گروپ و دیگر شامل تھے۔ براڈ شیٹ ایل ایل سی جولائی 2002ء نے کو قومی احتساب بیورو (NAB) کو اطلاع دی تھی کہ آفتاب شیر پاؤ کے جرسی کے بنک میں 3.5 ملین ڈالر رقم موجود ہے اور قومی احتساب بیورو نے جرسی اتھارٹیز سے درخواست کی کہ اس رقم کو منجمد کر دیا جائے جو کہ بعد ازاں قومی احتساب بیورو کی درخواست پر عارضی طور پر منجمد کر دیا گیا تھا۔ براڈ شیٹ ایل ایل سی کے مطابق اس درخواست میں باقاعدہ کوائف موجود نہ تھے۔ لہٰذا انہوں نے قومی احتساب بیورو سے باقاعدہ کوائف کے اندراج اور وضاحت کے ساتھ دوبارہ جرسی اتھارٹیز کو درخواست دینے کو کہا تھا مگر قومی احتساب بیورو نے اس معاملہ پر رابطہ نہ کیا۔ آفتاب شیر پاؤ 2004ء میں وزیر داخلہ بنا دئیے گئے اور نومبر 2006ء میں قومی احتساب بیورو نے آفتاب شیر پاؤ کیخلاف سپلیمنٹری ریفرنس فائل کیا تھا اور اگست 2007ء میں آفتاب شیر پاؤ نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے یہ رقم زرعی آمدن سے حاصل کی ہے جس کو جرسی میں منتقل کیا گیا تھا۔ مزید برآں اگست 2016ء میں قومی احتساب بیورو نے پراسیکیوشن ونگ کی تجویز پر انکوائری کو بند کردیا گیا تھا۔ جرسی اتھارٹیز پاکستان کی مدد سے قانونی کاروائی کرنا چاہتی تھیں مگر قومی احتساب بیورو نے پیروی نہ کی۔
براڈ شیٹ ایل ایل سی کے مطابق ایڈمرل (ر) منصور الحق اور انکے دو ساتھی جمیل انصاری اور عامر لودھی جن کے غیر ملکی اثاثہ جات کا سراغ لگانے میں قومی احتساب بیورو کی مدد کی تھی۔ جمیل انصاری کے 5 ملین ڈالر جرسی کے بنک میں موجود تھے اور اس کیس میں ایڈمرل (ر) منصور الحق سے 7.5 ملین ڈالر کی وصولی کی گئی تھی اور انکے ساتھی جمیل انصاری نے 792,620 ڈالر رقم کو رضامندی سے قومی احتساب بیورو کو دی تھی اور 5 ملین ڈالرز جو کہ جرسی کے بنک میں موجود تھے ان کو کوئی وضاحت نہ پیش کر سکے تھے ۔
براڈ شیٹ ایل ایل سی کو سچون گروپ کے فیملی ممبر کا کیس بھی دیا گیا۔ جنہوں نے پاکستانی بنکوں سے 2 ارب روپے لیے تھے اور بیرون ملک سرمایہ کاری کی تھی جبکہ پاکستان میں سجن گروپ (Schon Group) نے دیوالیہ ظاہر کیا تھا مگر جرم کا سراغ لگنے کی وجہ سے سچون گروپ نے 1.2 ارب قومی احتساب بیورو کو ادا کیے۔ براڈ شیٹ ایل ایل سی کے مطابق ان کو تفویض کی گئی فہرست میں اسحاق ڈار کا بھی نام تھا جنہوں نے 500 ملین ڈالرز بیرون ملک منتقل کیے تھے۔ جب پاکستان نے 1999ء میں غیر ملکی کرنسی کے بنک اکاؤنٹس کو منجمد کیے تھے مگر قومی احتساب بیورو اس پر زور دیتا تھا کہ اس فہرست میں اسحاق ڈار کا نام شامل نہ تھا۔ آخر کار قومی احتساب بیورو نے 2003ء میں براڈ شیٹ ایل ایل سی سے معاہدہ منسوخ کردیا تھا اور مزید خدمات لینے سے انکار کردیا تھا۔
براڈ شیٹ ایل ایل سی نے چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف آربٹیریز لندن میں واجبات کی ادائیگی کیلئے کیس فائل کردیا تھا اور یکم اگست 2016 کو چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف آربٹیریز لندن نے حکومت پاکستان کو ادائیگی کا حکم جاری کردیا تھا۔ حکومت پاکستان نے اس فیصلہ کو لندن ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا مگر حکومت پاکستان کو کوئی رعایت نہ دی گئی۔ انگلینڈ کے نظام عدل کو مضبوط نظام تصور کیا جاتا ہے اور اگر کوئی بھی معاہدہ کی خلاف ورزی کرے اسے مالی نقصان کا لازمی ازالہ کرنا پڑتا ہے یا پھر معاہدہ کی منسوخی کی وجہ سے معاہدہ میں موجود شق کی خلاف ورزی ثابت کرنا پڑتی ہے۔ حکومت پاکستان اس مقدمہ میں معاہدہ منسوخی کی ٹھوس وجہ پیش کرنے میں ناکام رہی اور نہ ہی کوئی پاکستانی عدالت کا فیصلہ موجود تھا جو معاہدہ کی منسوخی کی وجہ قرار دی جاسکتی ہو۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو کسی جگہ قانونی کوتاہی تو ہوئی ہے اور اسکا خمیازہ بھاری رقم کی ادائیگی کی صورت میں نکلا ہے۔ آخر کار لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن نے اس کیس کا فیصلہ 17 دسمبر کو دیا جس کے مطابق اندازاً 28 ملین ڈالر کی خطیر ادائیگی کا حکم دیا گیا۔ براڈ شیٹ کے وکلاء نے ایک خط میں رقم کی وصولی کی تصدیق کرتے ہوئے مزید 1.2 ملین ڈالر مزید ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے جو کہ اس بات کی تصدیق ہے کہ یونائٹیڈ بنک لمٹیڈ نے رقم کو براڈ شیٹ ایل ایل سی کو منتقل کردی ہے۔ نیب اس بات پر زور دے رہا ہے کہ نیب کی موجودہ انتظامیہ نہ تو براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ میں شامل تھی اور نہ ہی ثالثی کے عمل کا حصہ تھی جبکہ ثالثی اور اسکے بعد کے تمام اقدامات سے اٹارنی جنرل پاکستان کا دفتر اور وزارت قانون و انصاف پوری طرح واقف تھی اور اس میں ان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے ماہر قانون دان کا وزارت قانون و انصاف میں باقاعدہ تقرر کیا جائے اور پاکستان میں بین الاقوامی قوانین کی آگاہی کیلئے باقاعدہ سیمینار کا اہتمام کیا جائے۔ بین الاقوامی تجارتی روابط میں اضافہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی قوانین کا اطلاق لازم و ملزوم ہوگیا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی آگاہی سے مستقبل میں بھاری نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔