ڈی جی آئی ایس پی آر کا اپوزیشن کو فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے کا صائب مشورہ
مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ فوج کا کسی سے قطعاً کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں۔ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے، نہ ہی اسے سیاست میں گھسیٹا جائے۔ میڈیا بریفنگ اور بعد ازاں سوال و جواب کے سیشن کے دوران انہوں نے فوج کیخلاف بیانیے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ میں سیاسی تبصروں سے گریز ہی کرتا ہوں لیکن اگر آپ تنقید یا نام نہاد الزامات کی بات کررہے ہیں تو فوج اپنا کام کررہی ہے،فوج اپنی قربانیاں بھی دے رہی ہے، ہم ان پر ردعمل کیوں نہیں دے رہے۔ الزامات میں اگر کوئی حقیقت ہو تو ردعمل دیا جاتا ہے۔ ہم بہت مصروف ہیں، ہم ان چیزوں میں نہ پڑنا چاہتے ہیں نہ پڑیں گے، فوج اپنا کام کرتی رہے گی، کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے اور پوری فوج اور شہدا کے اہلخانہ کا مورال بہت بلند ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیانات پر فوج کے اندر تشویش اپنی جگہ موجود ہے، جس نوعیت کی تنقید کی جا رہی ہے ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ ان الزامات کا حکومت نے بہت اچھے طریقے سے جواب دیا۔اگر کسی کو الیکشن پر شک ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ پاک فوج کو حکومت وقت نے الیکشن کرانے کا کہا، پاک فوج نے اپنی پوری ذمہ داری اوردیانتداری سے الیکشن کرائے۔ پاکستان میں تمام ادارے کام کر رہے ہیں اس ضمن میں اداروں سے رجوع کیا جائے۔ فوج تو اپنا کام کر رہی ہے۔ اپنے راستے پر گامزن ہے اور کبھی اس راستے سے نہیں ہٹے گی۔دریں اثناء وزیر اعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات میں سانحہ مچھ کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا گیا ہے۔ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
پاک فوج کو بیک وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بات سرحدوں کی حفاظت کی ہو یا اندرون ملک دہشت گردی کے معاملات کی‘ پاک فوج ہمیشہ قوم کی امیدوں اور امنگوں پر پورا اتری ہے۔ پاک فوج کے سپوتوں نے جانوں کے نذرانے دیکر اس ملک میں امن و امان کی بحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ کسی بھی معاملے میں قوم کی پاک فوج کے ساتھ مکمل تائید اور حمایت رہی ہے۔ پاک فوج قوم اور قوم پاک فوج کیلئے طاقت کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا کی طاقت ور جدید اسلحہ سے لیس اور بہترین مہارت سے مزین افواج عوام کے اعتماد کے بغیر جنگوں میں فتح حاصل نہیں کر سکتیں۔ دشمن کی کوشش کسی بھی ملک کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے اسکی افواج اور عوام کے مابین دوریاں پیدا کرنے کی ہوتی ہے۔ عوام میں افواج کیخلاف نفرت پیدا کرنے کیلئے لغو پراپیگنڈے‘ جھوٹے دعوئوں اور فیک نیوز سے کام لیا جاتا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ ایسی سازشیں کی ہیں جن کو پاکستان کے عوام میں کبھی پذیرائی نہیں ملی مگر دشمن نے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔ ڈس انفولیب نے بھارت کی سازشوں کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے۔
پاک فوج کو ایک طرف مشرقی سرحد تک بھارت کی شرانگیزیوں کا سامنا ہے‘ دوسری طرف مغربی سرحد پر اسی دشمن کے ایماء پر سرگرم دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ پاک فوج کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اسکی خدمات کا ایک خوبصورت نقشہ سامنے آتا ہے۔ حالیہ دنوں جب ایل او سی پر بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جارہا تھا‘ اسی دوران دہشتگردی کا مقابلہ بھی جاری تھا۔ گزشتہ سال کرونا وبا نے بھی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ ٹڈی دل کا حملہ بھی انہی دنوں ہوا‘ پاک فوج کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان معاملات سے نمٹنے کی بھی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان میں بھی پاک فوج سرخرو ہوئی ہے۔ مغربی سرحد پر قبائلی اضلاع میں امن بحال کرنے کے ساتھ وہاں سماجی اور معاشی منصوبے پاک فوج کے تعاون سے جاری کئے گئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے پریس بریفنگ میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق قبائلی علاقوں کے 37 فیصد علاقوں پر حکومت کی رٹ محدود ہو گئی تھی جسے مکمل طور پر بحال کرایا جا چکا ہے اور پھر حکومت کیلئے ان علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کی آسانی پیدا ہوگئی۔
دہشت گردی کا اسکی جڑوں سے خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا مگر بوجوہ دہشت گردی کے واقعات کبھی کبھی ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردی میں اتنی کمی عوام اور افواج کے مابین یک جہتی اور یگانگت کا نتیجہ ہے‘ وہیں خال خال دہشت گردی کے واقعات نیشنل ایکشن پلان میں سقم کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ خصوصی طور پر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کیخلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے میں شاید کوئی کسر رہ جاتی ہے۔ کراچی میں امن کی بحالی میں بھی پاک فوج کے شہداء کا خون شامل ہے۔ پاک فوج نے ایران اور افغانستان کے بارڈر پر باڑ کی تعمیر سے دہشت گردوں کے سرحد کے آرپار آنے جانے کے راستے بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ 2611 کلو میٹر اس سرحد پر 83 فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ پاک فوج کا بنیادی اور پیشہ ورانہ کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے اور یہ کام اسکی طرف سے کماحقہ پوری ذمہ داری سے کیا جاتا ہے جس سے پوری قوم مطمئن اور دشمن پریشان ہے۔ اسکی طرف سے پاکستان اور اسکی افواج کیخلاف جھوٹا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے جس سے کچھ لوگ متاثر ہو کر گمراہ بھی ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو دشمن انکی قیمت لگا کر انہیں پاک فوج کیخلاف ہرزہ سرائی بھی کراتا ہے۔ ایسے لوگ علیحدگی پسندوں کی صورت میں پاکستان کے باہر اور اندر موجود ہیں۔
بھارت کو پاکستان نے ہر محاذ پر شکست سے دوچار کیا ہے۔ ایل او سی پر اسے دندان شکن جواب دیا جاتا ہے۔ سفارتی حوالے سے پاکستان نے اسکی دہشت گردی کے دستاویزی ثبوت دنیا کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اسکی سی پیک کیخلاف سازشیں بے نقاب کی گئی ہیں۔ رواں ہفتے بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو کمیٹیوں کی سربراہی سے دور کردیا گیا۔ ایسے بہت سے معاملات میں بھارت دہکتے کوئلوں پر لوٹ رہا ہے۔ اسکی پاکستان کیخلاف مہم جوئیاں جاری رہی ہیں جن میں ممکنہ طور پر اضافہ ہو سکتا ہے۔ گویا پاکستان کو مزید چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں عوام کا پاک افواج پر اٹوٹ اعتماد ضروری ہے۔
پی ڈی ایم کی پارٹیوں کو انتخابات پر تحفظات ہونگے ان کو دور کرنے کیلئے متعلقہ فورم موجود ہیں۔ ان سے رجوع کیا جانا چاہیے۔ پاک فوج ریاست اور حکومت کے ماتحت ادارہ ہے‘ وہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو‘ آئین اور قانون کے مطابق دیئے گئے احکامات کی بجاآوری اسکے فرائض میں شامل ہے۔ فوج کو آج جو چیلنچز درپیش ہیں‘ ان کا تقاضا ہے کہ پوری قوم اسکے شانہ بشانہ ہو۔ ایسے میں اپوزیشن سے فوج کے بارے میں اختیار کئے گئے بیانیے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
درپیش چیلنجز پاک فوج کے ساتھ اٹوٹ یکجہتی کے متقاضی
Jan 13, 2021