سینٹ: بریک ڈائون پر وزیر توانائی استعفی دیں اپوزیشن: قوم  کے مجرم ہمیں سبق پڑھارہے ہیں، حکومت

اسلام آباد(نیوزرپورٹر)اپوزیشن ارکان سینٹ نے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب سے مستعفیٰ ہونے کا  مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ  بجلی کے بریک ڈائون سمیت ملک میں چینی اور آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے معاملات متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوائے جائیں اپوزیشن سینٹرز نے  سندھ کے جزائر سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر  بھی  اپنے شدید تحفظات کا اظہار جاری رکھتے ہوئے   اسے صوبوں کے حقوق پر قبضے کے مترادف قرار دیا۔اپوزیشن نے  الزام عائد کیا ہے کہ  حکومت ملکی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور آرڈیننس کے ذریعے ملک کو چلایا جارہا ہے۔ براڈ شیٹ کو دئیے گئے عوام کے  700  کروڑ روپے کا حساب کون دے گا۔ حکومتی سینٹرز نے موجودہ مسائل کی حقیقی ذمہ دار اپوزیشن کو قراردیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو ختم کرنے کیلئے سازشیں کرنے وال آج ایک چھتری تلے جمع ہوگئے ہیں۔آج قوم کے مجرم ایوان میں بیٹھ کر ہمیں سبق پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔  اپوزیشن کی تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے  سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہاکہ جب ایوان میں مہنگائی کی بات کرتے ہیں تو حکومتی بینچز پر بیٹھے ہوئے سینیٹرز ان تمام مسائل کو سابقہ حکومتوں کی و جہ قرار دیتے ہیں انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اپنے منشور کے زریعے پاکستان کے عوام کو دھوکہ دیا ہے وزیر اعظم نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ملک میں انقلاب لائونگا اور پارلیمانی روایات کو سامنے رکھ کر ملک چلائیں گے آج ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے کیوں نہیں کئے ہیں سینیٹر نزہت صادق نے کہاکہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے وفاقی دارلحکومت میں آئے روز ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں ہورہی ہیں ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے حکومت کے وعدے کہاں گئے  سینیٹر عابدہ عظیم نے کہاکہ گذشتہ 22مہینوں میں حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی اقدام نہیں کیاہے حکومت کی ساری توجہ اپوزیشن رہنمائوں کی گرفتاری پر ہے  سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے جانے والے اجلاس میں اپوزیشن ارکان موجود نہیں ہیں اس ایوان میں قوم کے مجرم بیٹھ کر ہمیں سبق سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں سے پریشان ہوچکی ہے آج پی ڈی ایم حکومت کے عصاب پر سوار ہے  حکومت نے نہ صرف عوام کے حقوق بلکہ اس ایوان کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا ہے حکومت خود کام نہیں کر رہی ہے ان سے ملک نہیں چلایا جارہا ہے ملک اس وقت صدارتی نظام کی جانب جارہا ہے ۔سینیٹر کیشو بائی نے کہاکہ حکومت نے پورے پاکستان کابیڑا غرق کرکے حکومت سندھ کے جزائر پر نیا شہر بنانے کیلئے چلی ہے سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف وفاق کی علامت ہے حکومت کے اقدامات میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے اپوزیشن اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ملک کا نقصان چاہتی ہے۔سینیٹر ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہاکہ یہ درست ہے کہ صدر مملکت کو آرڈیننس کا اختیار حاصل ہے تاہم موجودہ آرڈیننس پاکستان کے آئین اور بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارلیمان مر چکا ہے پارلیمان میں عوام کے مسائل پر کسی قسم کی گفتگو نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس ایوان کو اعتماد میں لیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ ہفتہ کے روز بجلی کے بریک ڈاؤن سے پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا اور آج تک حکومت نے اس کی وجوہات ایوان کو نہیں بتائی ہیں انہوں نے کہا کہ واقعے کے بعد 7 چھوٹے لیول کے افسروں کو معطل کیا گیا۔ وفاقی حکومت کو اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس مسئلے پر انکوائری کرائے۔ سینیٹر ولید اقبال نے کہاکہ پاکستان کی سابقہ16حکومتوں نے مجموعی طور پر 954آرڈیننس منظور کی تھی جوکہ سالانہ 29آرڈیننس بنتے ہیں جبکہ اس حکومت کے دور میں سالانہ 20سے بھی کم آرڈیننس منظور ہوئے ہیں سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ ہمارے ملک میں حکمران طبقہ عقل ودانش سے عاری رہا ہے ملک میں معاشی صورتحال بہت بری ہے دہشت گردی ہے لیکن حکمران کہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے جب ملک ٹوٹ رہا تھا اس وقت ایوب خان بانسری بجا رہا تھا جب بلوچستان جل رہا تھا اس وقت مشرف بانسری بجا رہا تھا سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ ملک میں بننے والے دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کیلئے زمین کی خریداری پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوا اور مسلم لیگ ن کے دور میں پایہ تکمیل تک پہنچا ہے اور ان ڈیمز کی تعمیر کا سہرا بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو جاتا ہے وزرا اورمشیر میرے ساتھ شہروں اور بازاروں میں جاکر سروے کریں تاکہ ان کو عوام کی رائے معلوم ہوسکے انہوں نے کہاکہ وفاق صوبوں کے وسائل پر قبضہ نہیں کر سکتا ہے اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے خلاف عوام کی مزاحمت ہوگی  لندن کی براڈ شیٹ کمپنی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مشرف حکومت نے اسے بیرون ملک سیاستدانوں کے اثاثے دریافت کرنے کا معاہدہ کیا تھا تاہم مشرف حکومت نے اس کمپنی سے معاہدہ ختم کردیا جس پر وہ کمپنی عدالت چلی گئی اور دعویٰ کیا کہ ایون فیلڈ کے چار فلیٹس اسے دئیے جائیں ،پاکستان کرکٹ ٹیم پر پابندی لگائی جائے ،پاکستان کے بیرون ملک بنکوں میں موجود پیسے دئیے جائیں ۔تاہم عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ ایون فیلڈ کے فلیٹس حکومت پاکستان کے نہیں ہیں تاہم حکومت پاکستان کے یوکے کے بنکس میں موجود رقم ضبط کرکے کمپنی کو ادائیگی کی گئی جس کی مالیت 700کروڑ روپے ہے یہ نقصان مشرف کی حماقت اور موجود ہ حکومت کی جھوٹ کی وجہ سے ہوا۔ کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ سیاستدانوں کی تحقیقات کے حوالے سے جو ررقومات خرچ کی گئی ہیں اورغریبوں کے ٹیکس کے پیسوں سے جو 700کروڑ ادا کئے گئے ہیں اس کا حساب کون دے گا۔ تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے ۔وزیر مملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان نے کہاکہ صوبائی حقوق کی بات کرنے والے  اپنا ماضی بھی دیکھ لیں، 2008میں پیپلز پارٹی نے ایک ڈکٹیٹر سے حلف لیا اور اس کو ریڈ کارپٹ سلامی بھی دی کیا پیپلز پارٹی بتائے گی کہ اس کے دور حکومت میں چیف جسٹس کے گھر کے سامنے پارٹی کی مرحوم لیڈر نے کیا وعدہ کیا تھاجب پنجاب میں گورنر راج لگا تھا تو اس وقت میرا لیڈر عمران خان آئین کی جنگ لڑ رہا تھا جب نواز شریف کی حکومت پنجاب میں بنی تو وہ بھی بھول گئے کہ ایک چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑا تھا  آج اپوزیشن کو سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں ہے اگر اہیں یہ سپریم کورٹ پسند نہیں ہے تو ہندوستان کی سپریم کورٹ چلے جائیں یا پھر انگلینڈ کی عدالت میں چلے جائیں۔

ای پیپر دی نیشن