وزرا، ججز 2 تین دن جیل میں رہیں تو مشکلات کا اندازہ ہو ، اندر بڑی کرپشن ہے : اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت میں اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے ناروا سلوک اور جرائم کے خلاف کیس میں وزارت انسانی حقوق نے رپورٹ پیش کردی۔گذشتہ روز پٹیشن میں تبدیل ایک قیدی کے خط پر سماعت کے دوران ڈی جی وزارت انسانی حقوق نے تحریری رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایاکہ عدالتی احکامات کی روشنی میں وزیر انسانی حقوق نے تین اہم اقدامات لیے، چیف جسٹس نے کہاکہ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ کسی معاشرے کی گورننس کو دیکھنا ہو تو اسکی جیلوں کو دیکھ لیں، مبینہ طور پر جیلوں کے اندر بہت کرپشن ہے، یہ کیسے ٹھیک ہو گا۔ ڈی جی انسانی حقوق نے کہاکہ وزیر انسانی حقوق نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم کے خط سے ایک چیز ظاہر ہوئی کہ جیلوں میں بھی رول آف لاء نہیں ہے، انسانی حقوق کا مسئلہ وفاقی حکومت کا ہے اسے حکومت نے درست کرنا ہے۔ ڈی جی وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں 2100 قیدیوں کی گنجائش ہے 5700 موجود ہیں، بھکر اور اڈیالہ جیل میں دیکھی تو قیدیوں کی صورتحال دیکھی کہ وہاں با اثر قیدی ہیں اور امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ہیومن رائٹس کا ایشو ہے، اکثریت تو انڈر ٹرائل قیدیوں کی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ سزا نہ ہونے تک ملزم معصوم تصور ہوتا ہے، اکثر بے قصور بھی ہوں گے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنا ہے، کراچی میں جس طرح ہوا کہ قیدی ہسپتال کرائے میں لے کر رہ رہے تھے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے کہاکہ کراچی کا ماحول اور حالات کچھ مختلف ہیں، ڈی جی انسانی حقوق نے کہاکہ جب جیل کے اندر حالات دیکھے اور سپرنٹنڈنٹ جیل سے پوچھا تو وہ عدالتی حکم سے بھی آگاہ نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کم عمر بچوں کو جیل میں الگ رکھا جا رہا ہے یا نہیں؟، ڈائریکٹر جنرل نے کہاکہ بچوں اور خواتین کے لیے الگ بیرکس ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہاکہ آپ کبھی جیل گئے ہیں؟، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے کہاکہ جیل ٹرائل کے لیے جاتا رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہاکہ جیل ٹرائل کے لیے نہیں، کبھی قیدی بن کر جیل گئے ہیں؟، وکلا تحریک میں بہت سارے وکیل بھی جیلوں میں گئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ ججز کا جیل اتھارٹیز کو انفارم کیے بغیر جیلوں کا سرپرائز وزٹ ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کابینہ ممبر اور ججز بھی اگر دو دو تین تین دن جیل رہیں تو سمجھ سکیں گے کہ یہ کتنا مشکل ہوتا ہے، عدالت کس کو کہے کہ وہ تین چار دن جیل میں جا کر گزارے؟، اگر میڈیا کو جیلوں میں قیدیوں تک رسائی اور انٹرویوز کی اجازت دی جائے تو اس میں کیا خرابی ہے؟، جیل مینوئل پر عمل درآمد ہی نہیں ہو رہا، کسی کو تو اس پر جوابدہ ہونا چاہیے، عدالت نے سماعت 8فروری تک کیلئے ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن