’’پارلیمان‘‘ کے نام سے پی ٹی وی نے الگ سے ایک چینل بھی بنارکھا ہے۔مقصد اس کا ہمیں اس امر کے بارے میں باخبر رکھنا ہے کہ میرے اور آپ کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے دعوے دار اراکین پارلیمان اپنے فرائض کس انداز میں نبھارہے ہیں۔چند بین الاقوامی اداروں کی مددسے سینٹ اور قومی اسمبلی کو اپنے باقاعدہ اجلاس ا ور پارلیمانی کمیٹیوں میں ہوئی بحث یوٹیوب جیسے پلیٹ فارموں کے ذریعے براہ راست نشر کرنے کی صلاحیت بھی میسر ہے۔ان صلاحیتوں کا لیکن کماحقہ استعمال نہیں ہورہا۔
امریکہ میں بھی PBSکے نام سے پی ٹی وی (پارلیمان) جیسا ایک ٹی وی نیٹ ورک موجود ہے۔ اس کی بدولت وہاں کے عوام پارلیمان میں زیر بحث موضوعات کے بارے میں ہمیشہ باخبر رہتے ہیں۔ آج سے چند ماہ قبل افغانستان سے امریکی افواج کا ذلت آمیز انداز میں انخلاء ہوا تو کابل ایئرپورٹ پر رونما ہوئے مناظر سے چراغ پاہوکر امریکی اراکین پارلیمان نے فوج سمیت قومی سلامتی کے دیگر اداروں کے اعلیٰ ترین افسروں کو ان شعبوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹیوں کے روبرو طلب کیا۔ وہاں کئی گھنٹوں تک جاری رہے تندوتیز سوالات نے مذکورہ افسران کو دیوار سے لگائے رکھا۔
ہمارے ہاں پارلیمانی ادارے یقینا اس حد تک بااختیار نہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 2018میں نمودار ہونے والی پارلیمان بلکہ ویسی توانائی سے بھی کامل محروم نظر آتی ہے جو 1985میں آٹھ برس کے طویل مارشل لاء کے بعد غیر جماعتی انتخابات کی بنیاد پر قائم ہوئے ایوان میں نظر آتی تھی۔جنرل ضیاء کے سایے میں اپنی خودمختاری اجاگر کرنے کو ہمہ وقت بے چین اس قومی اسمبلی کو بالآخر 1988میں فارغ کرنا پڑا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد ایک فضائی حادثے کی وجہ سے جنرل ضیاء بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
پارلیمانی کمیٹیوں کی اہمیت کا مجھے گزشتہ دو دنوں سے شدید احساس ہورہا ہے۔سینٹ کی ایک کمیٹی ہے جو وزارت خزانہ کے امور پر نگاہ رکھتی ہے۔شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر جو منی بجٹ متعارف کروایا ہے اسے منظور یا رد کرنے کا ایوان بالا کو اختیار حاصل نہیں۔یہ اختیار فقط عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کو حاصل ہے۔ہمارا تحریری آئین مگر یہ تقاضہ بھی کرتا ہے کہ سالانہ یا منی بجٹ قومی اسمبلی کے سامنے رکھ دیا جائے تو اس کی نقل فی الفور سینٹ کوبھی بھیجی جائے۔ اس ایوان کی فنانس کمیٹی مالیاتی بل میں دی گئی تجاویز پر تفصیلی غور کے بعد اس کے بارے میں اپنی متفقہ رائے تحریری صورت میں قومی اسمبلی کے اراکین کو بھجوائے۔ یہ اصول اس گماں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے کہ منی بجٹ جیسے مالیاتی بل کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ ڈالتے ہوئے عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب ہوئے ا راکین اسمبلی ایوان بالا کی جانب سے آئی رائے کو بھی اہمیت دیں گے۔
ہمارا ریٹنگ اور چسکہ فروشی کا عادی ہوا میڈیا پارلیمانی کمیٹیوں میں ہوئی بحث پر کماحقہ توجہ نہیں دیتا۔فقط ا خبارات کے چند فرض شناس رپورٹر ان میں ہوئی کارروائی پر نگاہ ر کھتے ہیں۔ان کی مشقت کی بدولت مجھ جیسے ’’خلیفہ‘‘ ہوئے پارلیمانی رپورٹر کو دریافت ہوا کہ گزشتہ چند دنوں میں سینٹ کی فنانس کمیٹی کے جو اجلاس ہوئے وہاں سینیٹروں کی اکثریت نے فکرمندانہ لگن کے ساتھ منی بجٹ میں پیش ہوئی تقریباََ ہر تجویز کا جارحانہ انداز میں جائزہ لیا ۔وزیر خزانہ کے علاوہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر اور ایف بی آر کے چیئرمین بھی اس کے اجلاسوں میں موجود رہے۔کئی سوالات کا یہ صاحبانِ بااختیار تسلی بخش جواب فراہم نہ کر پائے۔ کاش سینٹ کی فنانس کمیٹی کے یہ اجلاس یوٹیوب وغیرہ کے ذریعے براہ راست دکھائے جاتے۔ انہیں دیکھتے ہوئے ہمیں بآسانی خبر ہوجاتی کہ روزمرہّ ضرورت کی بے شمار اشیاء پر سیلز ٹیکس کی رعایت کا واپس لیا جانا قیامت خیز مہنگائی کا طوفان کھڑا کردے گا۔
وزیر خزانہ اور ان کے حمایتی اصرار کئے جارہے ہیں کہ کھانے پینے کی فقط ان شیاء پر ٹیکس کی رعایت واپس لی گئی ہے جو ’’غریب‘‘ یا کم آمدنی والے لوگ ہرگز استعمال نہیں کرتے۔ان میں سے اکثر اشیاء غیر ملکوں سے منگوائی جاتی ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے نہایت سنگ دلی سے یہ حقیقت فرا موش کردی جاتی ہے کہ ہمارے محدود ترین آمدنی والے لاکھوں گھرانے بھی پاکستان ہی میں تیار ہوئے اس دودھ اور دہی کے استعمال کے عادی ہوچکے ہیں جو خاص کاغذ سے بنائے پیکٹوں میں دستیاب ہے۔بازار میں کھلے فروخت ہوتے دودھ کے خالص ہونے پر ہمیں اعتبار نہیں ر ہا۔ملاوٹ کے علاوہ وہ صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب بے شمار بیماریاں بھی پھیلاتا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے صحت مندانہ انداز میں پیک کئے دودھ اور دہی پر یکمشت 17فی صدسیلز ٹیکس کا نفاذ یقینا ان اشیاء کو مہنگا تر بنادے گا۔ ہم میں سے کئی گھرانے اپنے شیر خوار بچوں کو بازار میں بکتا دودھ پلانے کو مجبور محسوس کریں گے۔
دودھ اور دہی سے کہیں زیادہ تکلیف دہ وہ ٹیکس ہے جو ادویات پر لگایا گیا ہے۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو ادویات تیار ہوتی ہیں ان کا خام مال بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے۔منی بجٹ میں فیصلہ ہوا ہے کہ مذکورہ خام مال پر 17فی صد ٹیکس درآمد کنندہ سے فی الفور وصول کرلیا جائے گا۔اس ٹیکس کی وجہ سے ہم سردرد یا نزلہ زکام اور کھانسی جیسی عام بیماریوں سے نجات کے لئے اپنے گھروں میں رکھی گولیوں اور شربت کی قیمت ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔ ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے کئی ادارے دریافت کرچکے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ہاں تقریباََ ہر دوسرے گھر میں بلڈپریشر ،شوگر اور ہیپاٹائٹس -سی کے مریض موجود ہیں۔ان کی اکثریت فقط بوڑھے افراد ہی پر مشتمل نہیں۔نوجوانوں کی دل دہلادینے والی تعداد بھی ان امراض کی زد میں آچکی ہے۔تقریباََ ہر دوسرے گھرانے میں صحت مند زندگی کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہوئی ادویات پر ایسا ٹیکس انسانی درد سے قطعاََ محروم کوئی شخص ہی لگانے کی سوچ سکتا ہے۔
میری اطلاع کے مطابق مسلم لیگ (نون) کے سینیٹر مصدق ملک نے انتہائی جذباتی انداز میں مذکورہ ٹیکس کے اطلاق کے خلاف شدید ترین احتجاج کیا۔انہیں مطمئن کرنے کے لئے بالآخر اطلاع یہ دی گئی کہ ادویات کے خام مال پر لیا گیا ٹیکس ’’48گھنٹوں کے بعد‘‘ اسے منگوانے والے کو واپس کردیا جائے گا۔مصدق ملک یہ سن کر ایک جائز سوال اٹھانے کو مجبور ہوئے اور وہ یہ تھا کہ اگر وصول کردہ ٹیکس کو 48گھنٹے بعد واپس ہی کرنا ہے تو اسے لگایا کیوں جارہا ہے۔انہیں یہ جواب دیتے ہوئے خاموش کروانے کی کوشش ہوئی کہ ایسا قدم معیشت کو ’’دستاویزی‘‘ بنانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ہر حوالے سے یہ ایک ڈنگ ٹپانے والا جواب تھا۔
حکومت در حقیقت یہ چاہتی ہے کہ میں اور آپ سردرد کی گولیوں کا پیکٹ لینے کے لئے بھی ادویات کی دوکان پر جائیں تو وہ ہم سے 17فی صد سیلز ٹیکس وصول کرے۔ اس کی رسیدہمیں فراہم کرنے کے علاوہ اس رسید کی کاپی گولی تیار کرنے والی کمپنی کو بھی بھیجے۔اس طرح حکومت کو یقین ہوجائے گا کہ جو خام مال منگوایا گیا تھا وہ مذکورہ گولی تیار کرنے کے لئے ہی استعمال ہوا تھا۔خام مال منگوانے والے کو لہٰذا ادا کردہ ٹیکس واپس کردیا جائے گا۔ میں او ر آپ ہی اس ٹیکس کا حتمی نشانہ ہوں گے۔ ’’صحت کارڈ‘‘ کا ڈھول بجانے والی حکومت سے مجھے ایسی توقع ہرگز نہیں تھی۔