بھارت میں عیسائیوں پر ہونے والے مظالم!!!!!!(قسط نمبر5)

نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ سخت گیر ہندو تنظیموں نے عیسائیوں پر غریب ہندوؤں اور قبائلی برادری کو پیسے، مفت تعلیم اور پناہ کی پیشکش کر کے فلاحی منصوبوں کی آڑ میں مذہبی تبدیلی کے پروگراموں کی قیادت کرنے کا الزام لگایا ہے۔ وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ مشنریز آف چیریٹی کی لائسنس کی تجدید کے لیے درخواست جو اسے بیرون ملک سے فنڈز حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے کرسمس کے موقع پر مسترد کر دی گئی۔ مشنریز آف چیریٹی کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنا اور کرسمس کی تقریبات پر حملے شمالی ہندوستان میں ہندوؤں کے مقدس شہر ہریدوار میں ایک متنازعہ تقریب کے انعقاد کے چند دن بعد ہوئے جہاں تشدد پسند اور ہندو سخت گیر ہندوؤں نے مسلمانوں کے اجتماعی قتل کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ ساری کارروائیاں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی بی جے پی کی سرپرستی میں ہوتی ہیں۔ مدر ٹریسا کے فلاحی کاموں کا اعتراف کرتے ہوئے 1979 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔اور انھیں ان کی موت کے 19 سال بعد 2016 میں پوپ فرانسس نے سینٹ قرار دیا تھا۔
نوبل انعام یافتہ مدر ٹریسا، ایک رومن کیتھولک راہبہ جو 1997 میں فوت ہوئیں انہوں نے 1950 میں مشنریز اور چیریٹی کی بنیاد رکھی۔ چیریٹی کے پاس دنیا بھر میں 3,000 سے زیادہ راہبائیں ہیں جو لاوارث بچوں کے لیے ہسپتال، کمیونٹی کچن، اسکول، کوڑھی کالونیاں اور گھر چلاتی ہیں۔ہندوستان میں عیسائی برادری کے ایک رہنما نے ہندوستان میں ہندوؤں کے بارے میں اپنے دل کی بات کہی۔  ’’ہندو ایک ناشکری قوم ہیں۔  وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ عیسائی مشنریوں نے 19ویں صدی کے آخر میں ہندوستان، خاص طور پر شمال مشرق میں آنا شروع کیا۔  انہوں نے خطے میں تعلیم اور سماجی و اقتصادی ترقی کے کاموں کو فروغ دیا۔  راجستھان میں، صرف ایمانوئل مشن 50 سے زیادہ اسکول چلاتا ہے۔
بھارت کی چھوٹی مسیحی اقلیت اب دوسری اقلیتوں کے ساتھ مل کر اپنے حقوق کے دفاع کی کوششوں میں شریک ہے۔ نریندرا مودی بھارت کو ایک ہندو ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بھارتی آئین میں ریاست کی تمام شہریوں سے یکساں سلوک کی شقوں کی بس تدفین ہی باقی ہے کیونکہ نریندرا مودی کی جماعت ہندوؤں کے سوا کسی کو دیکھنا نہیں چاہتی۔
 یہ وہ ہندوستان ہے جہاں ایک مسلمان کامیڈین کو ایک ایسے لطیفے پر جیل بھیج دیا گیا جو اس نے نہیں سنایا تھا۔  پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ کوئی ایسا لطیفہ کہہ سکتا تھا جو ہندوؤں کے لیے ناگوار ہو۔
 ہندوستانی آئین کے مطابق شہریوں کو کسی بھی مذہب کو "قبول کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ" کرنے کی آزادی ہے۔  لیکن مودی کے دور حکومت میں بی جے پی کی حکومت نے آٹھ ریاستوں نے یہ امتیازی قوانین منظور کیے ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں عیسائیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ 
ایک ایسا ملک جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ نہایت خوفناک ہے۔ ہندوؤں کے علاوہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی میں سکون نہیں ہے۔ سب خوف کا شکار ہیں۔ سکھ دنیا بھر میں ہندوؤں کے متعصب رویے کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ عیسائی چرچ جا کر مذہبی عبادات نہیں کر سکتے، وہ چرچ جاتے ہوئے انجانے خوف کا شکار ہیں، چرچ جانے والا ہر شخص زندگی ختم ہونے کے خوف کا شکار ہے۔ تنگ نظر اور متعصب ہندو عیسائیوں پر تشدد کر رہے ہیں، گرجا گھروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ اور مذہبی مقامات کی حفاظت، دیکھ بھال اور ذمہ داریاں ادا کرنے والے افراد سخت گیر ہندوؤں کے نشانے پر ہیں۔ نریندرا مودی اقلیتوں کا گلا دبانے کے لیے ناصرف سخت قوانین بنا رہے ہیں بلکہ تحفظ فراہم کرنے اور امن و امان کو یقینی بنانے والے ادارے بھی ریاست کی اعلانیہ، غیر اعلانیہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے ڈرانے دھمکانے میں مصروف ہے۔ متاثرین کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے ظالموں کی مدد ہو رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون توڑنے اور قانون ہاتھ میں لینے والوں کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ "شائننگ انڈیا" کا حقیقی چہرہ ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے عیسائیوں کو بھارت میں ہونے والے اس ظلم و ستم کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ کب تک مالی مفادات آڑے آتے رہیں گے، کب تک مالی معاملات کو انسانی جانوں پر ترجیح دی جاتی رہے گی۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عالمی طاقتیں بھارت میں انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف حرکت میں آئیں۔ یہ پر تشدد اور جارحانہ کارروائیاں کسی ایک مذہب نہیں ہر اس شخص کے خلاف ہیں جو ہندو نہیں ہے۔ پاکستان کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر دہائیوں سے آواز بلند کر رہا ہے۔ دنیا اس طرف توجہ نہیں دیتی، شاید یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان مذہب کارڈ استعمال کرتا ہے حالانکہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ مظلومین انسان بھی تو ہیں۔ اگر اب بھی بھارت میں عیسائیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بپند نہ کی گئی تو نریندرا مودی اور ان کی جماعت جو کچھ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ کر رہی ہے انہی حالات کا سامنا بھارت میں عیسائیوں کو بھی کرنا پڑے گا۔ تنگ نظر ہندو اس حد تک متعصب ہو چکے ہیں کہ وہ فلاحی کاموں کو بھی روکنے سے گریز نہیں کرتے ان کے خیال میں فلاحی کاموں کے ذریعے بھی مذہب کی تبدیلی کا خطرہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشنریز آف چیریٹی کو بھی خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دہائیوں سے جاری فلاحی تنظیموں کو ہندو مذہب کے پیے خطرہ قرار دے کر رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ سخت گیر، متعب اور انتہا پسند ہندوؤں کی اس تنگ نظری کی وجہ سے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ خطے اور دنیا کے امن کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ جاننے، مکمل تفصیلات اور معلومات رکھنے کے باوجود دنیا کب تک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے گی۔ ختم شد

ای پیپر دی نیشن