آٹھ دس گھنٹے کے سنسنی خیز اور اعصاب توڑ ڈرامے کے بعد قبلہ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ کامیابی کوئی عام سی کامیابی نہیں ہے، درجہ بندی میں یہ اپنی نوعیت کی شاہکار کامیابی ہے۔
پرویز الٰہی اور ان کی اتحادی پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے مطلوبہ تعداد موجود ہے (یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے، بیشتر لوگ لکھتے ہیں کہ پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں، دراصل حکومت پرویز الٰہی کی ہے، پی ٹی آئی ان کی اتحادی ہے، کس کے کتنے ووٹ ہیں، یہ معاملہ غیر متعلق ہے۔ جدھر پرویز الٰہی جائیں گے، عمران خان ان کی اقتدا میں ادھر ہی جائیں گے) اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ نمبر پورے نہیں ہیں، 17 کم ہیں۔
بہرحال، 5 ووٹ تو آخر تک نہیں آئے یا شاید چھ لیکن باقی گیارہ بارہ کو رات گئے پرویز الٰہی نے یہ حلفیہ وعدے کر کے منوا لیا کہ ڈرو مت، اسمبلی نہیں توڑوں گا، واپس آ جائو اور وہ آ گئے۔ شام سے شروع ہونے والا اجلاس انہی کی واپسی کی خاطر رات گئے منزل مراد پر پہنچا، رات گئے کہاں، اگلا دن آ گیا، تب معاملہ فیصل ہوا۔
پنجاب حکومت کے پاس نمبر پورے ہوتے تو چند باتیں کبھی نہ ہوتیں۔ مثلاً دو نامعلوم افراد کو رکن اسمبلی کا پہناوا پہنا کر اسمبلی میں بٹھا دیا گیا لیکن وہ پکڑائی میں آ گئے اور نکال باہر کئے گئے۔ اس کے بعد اگر رکن پورے ہوتے تو فیصلہ ایوان میں ہوتا نہ کہ لوگوں کی نظروں سے چھپی گیلری میں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اپوزیشن کے -3 ارکان کو ووٹنگ کی نگرانی سے نہ روکا جاتا۔ نمبر پورے ہوتے تو کیا ڈر تھا۔
خیر اب تو پرویز الٰہی کامیاب ہو چکے، اپوزیشن کہتی ہے کہ گیارہ بارہ ناراض ارکان کی واپسی کے باوجود 3 ارکان کم تھے یعنی 186 نہیں تھے، 182 یا 183 تھے۔ میرا خیال ہے کہ ان تین کی کمی سے کیا فرق پڑتا ہے، بہت کم تعداد ہے۔ نئے نظام کا تو کچھ زیادہ پتہ نہیں لیکن ہمارے زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ امتحان میں کسی کے نمبر پاس ہونے سے مبلغ تین عدد کم ہوتے ممتحن خوشخطی کے کھاتے میں ڈال کر اسے تین نمبر اضافی دے دیتا اور اسے پاس کر دیتا۔ پرویز الٰہی کے پاس تین نمبر کم تھے تو انہیں اس خوش خطی کے کھاتے میں ڈال کر پورا کر دیا جائے جو پرویز الٰہی ، سپیکر پنجاب اسمبلی اور سیکرٹری نے مل کر کی۔ دیکھا نہیں، کس صفائی سے اوپن ہینڈ کو ’’لابی بند‘‘ کر کے اپوزیشن کے مبصرین کو مکھن سے بال کی طرح نکال دیا گیا۔
اپوزیشن اب دادرسی کی مطلوب ہے۔ ارے بھائی کیسی داد رسی۔ اس لیے کہ داد رسی ہمیشہ حق سچ کی ہوتی ہے اور حق سچ عمران خان کے ساتھ ہے اور عمران خان پرویز الٰہی کے ساتھ…داد بھی الٰہی کی، رسی بھی الٰہی کی۔
________
معاملہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ یہاں شروع میں پھر بھی کے الفاظ کا اضافہ کرنا چاہیں تو کر لیں۔ بلکہ اب تو بڑے بحران کی بنیاد ڈال دی گئی ہے اور یہ ہماری ’’سیاسی جبلّت ‘‘ کے عین مطابق ہے۔ ہم چھوٹے موٹے بحران سے راضی نہیں ہوتے۔ معمولی بحران ہماری تسلی کے لیے کافی نہیں ہوتا، ہماری تسکین بڑے بحران ہی میں ہے اور ماشاء اللہ پنجاب اسمبلی کے اس معاملے نے بڑے بحران کا راستہ کھول دیا ہے، کیسے؟۔ آنے والے دنوں میں ملاحظہ فرما لیجئے گا۔
________
دو روز قبل قبلہ پرویز الٰہی نے عمران خان کو شاندار سے زیادہ خراج تحسین پیش کیا اور انہیں دوسرا قائد اعظم قرار دیا۔
یہ واضح نہیں کہ عمران خان کو قائد اعظم قرار دے کر انہوں نے تلخیٔ ایّام کا غصّہ نکالا ہے یا کوئی سیاسی چال چلنے کی راہ ہموار کی ہے یا پاکستانیوں کا دل جلانے کا شوق پورا کیا ہے اور واضح رہے کہ تلخی ایّام کا دور اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بھی ابھی گزرا نہیں ہے۔
قائد اعظم نے پاکستان بنایا تھا جو اس جغرافیائی علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ایک نعمت تھا۔ علاوہ ازیں یہ عالم اسلام کے لیے تحفہ بھی تھا۔ برا ہو ان بروں کا جنہوں نے 1971ء میں اس تحفے کو شکست کر دیا۔ پاکستان بننے سے پہلے عالم اسلام بطور ایک بلاک کے کوئی وجود نہیں رکھتا تھا۔ مسلمان ہونے کے نام پر دنیا میں کل 5 ملک تھے۔ افغانستان، ایران، ترکی اور سعودی عرب نیز مصر۔ یہ سب عالمی سیاست میں تب ’’غیر اہم‘‘ تھے۔ پاکستان جیسا بڑا اور مضبوط ملک نقشے پر آتے ہی ’’عالم اسلام‘‘ کی شکل بن گئی، پھر پے درپے ملک آزاد ہو گئے۔ 1960ء کی دہائی اور اس کے بعد تک پاکستان عالم اسلام کا سہارا تھا۔ 1971ء کے بعد یہ بے سہارا ہو کر سہارے ڈھونڈنے لگا اور آج تک یہ ’’ڈھنڈیا‘‘ جاری ہے۔ پاکستان کو اس انجام تک پہنچانے والے ’’چاروں‘‘ وہی تھے جنہیں ہر دور میں پرویز الٰہی صاحب یا ان جیسوں نے قائد اعظم کا خطاب دیا، کسی نہ کسی رنگ میں۔
یا د ہو گا، انہی لوگوں نے نواز شریف کو قائد اعظم ثانی کا خطاب دیا اور جب قائد اعظم ثانی گجرات پہنچے تو یاد ہو گا کہ کس طرح، ان کی گاڑی ہاتھوں سے اٹھا کر لے جائی گئی۔ ان کی حکومت ختم ہوئی تو پرویز مشرف کو قائد اعظم کی مسند پر بٹھا دیا گیا اور یہ عہد و پیماں کیا گیا کہ انہیں دس بار وردی میں منتخب کرائیں گے۔ پھر جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا ڈپٹی زرداری صاحب نے بنایا تو زرداری صدی کے عظیم مدبر اور وژنری لیڈر ٹھہرے اور اب خیر سے عمران خان قائد اعظم ثانی قرار پائے۔
قائد اعظم ہونے کا خطاب اگلی بار کسے دیا جائے گا، دیکھنے کی بات ہے اور دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم کی ذات کے تقدس کے حوالے سے کوئی صاحب یا ادارہ حرف اعتراض لب پر لاتا ہے یا نہیں۔
________
پرسوں کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہیں اور بعض لوگوں کو اب بھی شک ہے کہ پتہ نہیں، ہو بھی پاتے ہیں کہ نہیں۔
بظاہر دو ہی جماعتیں بلدیاتی منظر نامے پر چھائی ہوئی ہیں۔ ایک جماعت اسلامی اور دوسری پیپلز پارٹی۔ پی ٹی آئی بھی ہے لیکن اس کے امیدوار تادم تحریر عوام میں نہیں آئے اور کہیں کوئی گیا بھی تو لوگوں نے گھیر لیا کہ کراچی کے لیے تم نے کیا کیا۔ ووٹ بنک کے اعتبار سے متحدہ بھی بڑی پارٹی ہے لیکن اس کی دھڑے بندی نے امید کا دروازہ بند کر رکھا ہے۔ عملی طور پر اس نے بائیکاٹ کر رکھا ہے اور اس نے کل ہی کہا ہے کہ ایک پارٹی کا میئر دوسری کا ڈپٹی میئر لانے کی سازش ہو رہی ہے۔
اشارہ یہاں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی طرف ہے۔
جماعت اسلامی کو 70ء کی دہائی میں ضیاء الحق نے کراچی بدر کر دیا تھا۔ منصوبہ ان کا یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کی جگہ سندھی قوم پرست گروہ کو لایا جائے اور کراچی کو سندھی مہاجر میدانِ جنگ بنا دیا جائے لیکن سندھی عوام پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے، مہاجر البتہ ایم کیو ایم سے وابستہ ہو گئے۔ پرویز مشرف نے جماعت اسلامی پر وہ ستم ڈھایا کہ وہ کراچی میں زیر زمین ہونے پر مجبور ہو گئی۔ باوجود اس کے کہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم پرویز مشرف کے والاو شیدا تھے، ان کے کہنے پر واجپائی کا دورہ لاہور سبوتاژ بھی کیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد جماعت اسلامی کراچی کی سیاست میں واپس آ رہی ہے۔ یہ واپسی کتنی دبنگ ہوتی ہے، کتنی نہیں، یہ دیکھنے کے لیے بیچ میں 48 گھنٹے رہ گئے۔
________