غریبوں کے لئے من و سلویٰ کی دُعا

قرآن پاک میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا ۔’’ تم مجھ سے دُعا کرو، میں تمہاری دُعا قبول کروں گا‘‘ پھر دُعامانگنے کا طریقہ بھی بتایا کہ ’’ اپنے پروردگار سے عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے دُعائیں مانگا کرو‘‘ اور یہ کہ ’’ اور اپنے پروردگار کو دل میں ، عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو‘‘۔ ایک اور جگہ کہا گیا ’’ اور معاشرے میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خدا سے خوف کرتے ہُوئے امید رکھ کر دُعائیں مانگتے رہنا۔ بے شک خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے ‘‘۔ ہمارے یہاں ہر شخص اپنے لئے اور اپنے پیاروں کیلئے اللہ سے دُعائیں مانگتا ہے ۔ بعض دُعائیں قبول ہو جاتی ہیں ، بعض نہیں ۔ یہ قادرِ مطلق کی مرضی ہے ۔ ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ بچوں کیلئے ماں باپ کی دُعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں لیکن یہ دُعائیں قبول کرنے یا نہ کرنے استحقاق بھی مالک کا ہے۔ یہ مالک ارض و سما کی مرضی ہے کہ وہ جسے چاہے دُعائوں کے بغیر ہی نواز دے اور دُنیا کی ہر نعمت گھر بیٹھے بیٹھے اُس کو مہیا کردے۔ ہمارے یہاں مسجد میں ہر نماز کے بعد خاص طور پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے موقع پر اجتماعی دُعائیں مانگنے کا رواج ہے۔ مولوی صاحبان خشوع و خضوع سے گِڑ گڑا کر اور بڑے رقت آمیز لہجے میں اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہیں اور مقتدی حضرات زور سے یا آہستہ سے آمِین کہتے ہیں ۔ یہ دُعائیں کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں ۔
’’ یا اللہ! پاکستان کو قائم و دائم رکھ۔ عالمِ اسلام میں اتحاد اور یک جہتی پیدا کردے۔ کشمیر ، فلسطین اور دُنیا کے دیگر حصوں میں آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کر۔ یااللہ! ہمارے گناہ معاف کردے ۔ ہمیں سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرما۔ پاکستان میں اسلامی نظام قائم کردے۔ دنیا میں اسلام کا بول بالا کردے اور ہر ملک کے مظلوم مسلمانوں کی مشکلیں آسان کردے‘‘ اور ہم کہتے ہیں ’’ آمِین ‘‘۔
عجیب بات ہے کہ ہماری یہ اجتماعی دُعائیں قبول ہی نہیں رہیں۔ پاکستان ٹوٹ کر آدھا رہ گیا۔ عالم اسلام میں اتحاد کی کوئی سبیل ہی نہیں بن رہی۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کا نام دیکر انہیں کچلنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے اور اب پاکستان کے مختلف حصوں میں قیامتِ صغریٰ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پاکستانیوں کے گناہ معاف نہیں کیے تبھی تو ہمیں ’’ سچا مسلمان‘‘ بننے کی توفیق نہیں مل رہی۔ اسلامی نظام کے بارے میں ہمارے علماء اور مشائخ اس پر متفق نہیں ہوسکے اور وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نے کرنا ہے تو مسلمان حکمرانوں اور فوجی جرنیلوں کا فریضہ کیا ہے؟پاکستان میں ہزاروں ( سیاسی اور غیر سیاسی) علمائے کرام، مشائخ عُظّام اور سجّادہ نشین اور پیر صاحبان ہیں جو عام مسلمانوں کی دُنیوی اور دینی معاملات میں رہنمائی بھی کرتے ہُوئے نظر آتے ہیں ، پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کے ذریعے انکے اقوال زریں عام لوگوں تک پہنچ رہے ہیں ۔ انکی انفرادی یا ذاتی دُعائیں تو یقیناً قبول ہو رہی ہیں کیونکہ اُنکے ’’درجات‘‘ مسلسل بلند ہو رہے ہیں لیکن ان کی قوم کیلئے اجتماعی دُعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں ۔ حیرت ہے!
صدر سکندر مرزا سے لیکر صدر عارف الرحمن علوی تک اور وزیراعظم لیاقت علی خان سے لیکر وزیراعظم شہباز شریف تک اور تمام گورنرز ، وزرائے اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزراء ممبران سینٹ و قومی اسمبلی کیلئے اُن کی اپنی یا کسی نہ کسی کی دُعا ضرور قبول ہوئی ہوگی کہ وہ تاریخ میں نام پیدا کرنے میں کامیاب رہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دُعا بھی انفرادی ہوگی ، پوری قوم نے مسجدوں میں ان کیلئے اجتماعی دُعا نہیں مانگی ہوگی! ہر دَور میں بغیر کسی کی دُعا کے جھنڈے والی کاروں میں گھومنے کے اہل مخصوص طبقے کے لوگ ہیں ۔ جاگیر دار ، سرمایہ دار، ذخیرہ اندوز اور افسر شاہی کے کارندے بھی تو کسی نہ کسی کی دُعاسے پھل پُھول رہے ہیں۔اگر ہمارے یہاں کسی کی دُعائیں قبول نہیں ہو رہیں تو وہ ہے نچلا طبقہ یعنی کم آمدن والے لوگ، یہ ان لوگوں میں شامل نہیں ہیں جو قرآن پاک کی زبان میں ’’ ملک میں اصلاح کے بعد خرابی پیدا کرتے ہیں‘‘ ان میں تو خرابی پیدا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ۔ یہ انتہائی عاجز اور خدا سے خوف کرنے والے بندے ہیں ۔ پھر ان کا زندہ رہنا کیوں دوبھر ہوگیا ہے ؟ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ گناہ کار لوگ ہیں تو کیا کوئی ایسی صورت نہیں کہ پاکستان کے تمام علماء ، مشائخ، سجّادہ نشین اور پِیر صاحبان اجتماعی طور پر ان سب کیلئے دعا کریں ۔ بنی اسرائیل کو تو مصر سے نکلنے کے بعد چالیس سال تک جزیرہ نمائے سینا کے صحرا میں پریشان پھرتے رہنے کے بعد معافی مل گئی تھی۔ پاکستان کے محروم طبقے تو گذشتہ 75 سال سے ’’صحرائے مایوسی ‘‘ میں بھٹک رہے ہیں۔پاکستانی قوم ناشکری نہیں ہے ، خاص طورپر محروم طبقے کے لوگ’’ جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا‘‘ کے نظریے کیمطابق زندگی گزار رہے ہیں لیکن کیا کِیا جائے کہ اب ترکاری (سبزی) گندھ، مسور ( اور دوسرا اناج اور دالیں ) پیاز ( لہسن اور ادرک ٹماٹر بھی)  خریدنے کی قوت نہیں رکھتے ۔ کئی وفاقی وزرائے خزانہ کا بیان تو کئی بار میڈیا کی زینت بن چکا ہے کہ ’’ پاکستان میں 60 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین ! میری عاجزانہ تجویز ہے کہ ’’حضرت میاں محمد بخشؒ نے فرمایا تھا کہ 
’’ رحمت دا مِینہ پا خُدایا، باغ سُکّا کر ہریا !
بُوٹا آس اُمید دا میری ، کر دے ہریا بھریا !‘‘
میرا خیال ہے کہ اِس شعر کی روشنی میںحکمران طبقہ کے تمام لوگ ، علمائے کرام ، مشائخ عُظام ، سجّادہ نشِین اور پِیر صاحبان اور متمول طبقے کے وہ لوگ جِن کا نام فی الحال پانامہ لیکس میں نہیں ہے ، کسی بھی جمعہ کو اپنے اپنے مسلک کی مسجد میں نماز کے بعد محروم طبقے کے لوگوں کیلئے اجتماعی دُعائیں مانگیں۔ دُعائیں بیشک دل ہی دل میں اور چپکے چپکے مانگیں ۔ مختصر دُعا یہ ہو ’’ اللہ جی! غریب لوگ جو سبزی، گندم اور دالیں نہیں خرید سکتے ، ان کیلئے من و سلویٰ اور پینے کا صاف پانی بھیجئے‘‘۔مجھے یقین ہے کہ ہمارے لوگ بنی اسرائیل کی طرح ناشکراپن نہیں کرینگے ۔ وہ من و سلویٰ پر گزارا کر لیں گے اور سبزی ، گندم ، مُسور اور پیاز کی فرمائش نہیں کریں گے ؟

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...