بھارت میں آزاد میڈیا کی ’نیلامی ‘ 

2002ء میں بھارتی صوبہ گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد سے نریندر مودی بھارت کے آزاد میڈیا کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘نظریے کیلئے خطرناک قراردیتا چلا آرہا تھا۔اس کی وجہ گجرات میں ہندو توا کی طرف سے 2002 ء میں 28فروری سے 3مارچ تک معصوم و بے گناہ مسلمانوں کو بہیمانہ قتل عام پر بھارت کے نجی آزاد میڈیا کی حقائق پر مبنی رپورٹنگ تھی۔ جس کی بدولت نریندر مودی کو ’’قصائی‘‘)دہشت گرد( قرار دے کر امریکہ میں اس کے داخلے پر امریکی وزارت خارجہ نے پابندی لگادی ۔ یہاں تک کہ 2012ء میں بھارت کے نظام عدل نے جب مودی کیخلاف گجرات میں مسلمانوں کے منظم قتل عام کی تفتیشی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے اسے بے قصور قرار دیا تو ا س وقت بھی بھارت کا یہی نجی آزاد پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہی تھا ۔ جس نے نریندر مودی کو گجرات ہائی کورٹ سے ملنے والے ریلیف کی خوشی کو بدمزہ کیے رکھا ۔ حقائق پر مبنی خبروں کی اشاعت و نشریات کاسلسلہ اپریل 2014ء میں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے گجرات مسلم کش فسادات کے الزامات سے مکمل طور پر نریندر مودی اور اس کے حواریوں کو بری کیے جانے کے بعد تک جاری رہا۔
 25مئی 2014ء کو نریندر مودی کے بھارتی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی بھارتی آزاد میڈیا نے راشٹریہ سیوک سنگھ کے خاص رکن کے طورپر نریندر مودی کی ’’تعریف و تعارف‘‘کی روایت کو برقرار رکھا تو بھارت میں ہندوتوا کے پیروکاروں نے ان تمام بھارتی صحافیوں کا ’’مکو ٹھپنے‘‘کا فیصلہ کر لیا جو بھارت کو ’’ہندو دیش‘‘بنانے کی راہ میں رکاوٹ تھے اور آزادی اظہار کے نام پر مہابھارت کیلئے 1925ء سے کام کرنے والی جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ پر ہندوتوا کا لیبل لگا کر اس کے کارکنوں کو دنیا کی نظروں میںانتہا پسند ثابت کرنے پرتلے ہوئے تھے۔ 
بھارت میں حقائق منظر عام پر لانے والے صحافیوں پر قابو پانے کیلئے نریندر مودی سرکار نے تقریباً وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو نازی جرمنی میںہٹلر کا طریقہ کار تھا۔ ایک طرف آزادی اظہار پر یقین رکھنے والے میڈیا گروپس پر ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی۔دوسری طرف انہیں ملنے والے سرکاری و نجی اشتہارات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،مودی سرکار کے اقلیتوں کے خلاف اقدامات پر تنقید کرنے والے صحافیوں پر مقدمات قائم کیے گئے بعض کو نامعلوم افراد کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایاگیا ، ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیاگیا۔کچھ صحافیوںکو جیلوں میں ڈالا گیا ۔ان میں سے جو بغیر تحریر کے معافی مانگ لیتے اور نریندر مودی کی حمایت پر راضی ہوجاتے انہیں رہائی مل جاتی۔ اس طرح کے اقدامات سے دلبرداشتہ ہوکر بہت سے صحافی بھارت چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن ’’نیو دہلی ٹیلی ویژن لمیٹڈ‘‘(NDTV)جیسے میڈیا گروپس کسی بھی دبائو کو خاطر نہ لاتے ہوئے ہندوتوا کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے لاتے رہے اور ہندو انتہا پسندوں کے اقلیتوں پر حملوں کی حقائق پر مبنی رپورٹنگ کا سلسلہ جاری رکھاگیا ۔ Reporters Without Bordersکی طرف سے جاری کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق 2020ء تک نریندر مودی سرکار کے دورحکومت میں 200سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار یوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوانتہا پسندوں کے مخالف سمجھنے جانے والے صحافیوں کو سوشل میڈیا پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ۔ ان کے خلاف غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے ہوئے گالم گلوچ سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ 2020ء میں ہی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے انسانی حقوق کی بھارت کے بارے میں جاری کی گئی رپورٹ میں بھی صحافیوں پر تشدد کی تفصیل موجود ہے ۔ جس کے مطابق صرف کرونا وبا کے دوران نریندر مودی سرکار کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنانے والے 55صحافیوں اور ایڈیٹرز کو مختلف طرح کے جھوٹے مقدمات درج کر کے گرفتار کیا گیا۔ 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد وہاں لگائے گئے تاریخ کے طویل ترین کرفیو کے دوران درجنوں کشمیری صحافیوں کو حراست میں لیا گیا اور بعض کو شہیدکردیا گیا۔ اس کے برعکس نجی میڈیا کے وہ گروپس جو نریندر مودی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے ’’صرف ہندوئوںکا بھارت‘‘نظریے کی حمایت پر راضی ہوگئے انہیں بھر پور مالی فوائد سے نوازا گیا۔ 
بھارت میں آزاد صحافت پر قدغن کا سلسلہ 2014 ء سے جاری تھا تاہم حقیقی بھونچال اس وقت آیا جب اگست 2022ء میں انکشاف ہوا کہ ایشیاء کے سب سے بڑے دولت مند بھارتی صنعت کار اور نریندر مودی کے سیاست میں معاشی سہولت کار ارب پتی گوتم اڈانی نے این ڈی ٹی وی کے 55 فیصد حصہ داری کے حقوق خرید لیے ۔اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی صحافت میں آزادی اظہار کی درجہ بندی میں بھارت 150ویں درجہ پر آگیا ہے۔گوتم اڈانی کے کنٹرول میں جانے کے بعد سے این ڈی ٹی وی کے انگریزی اور ہندی چینلوں پر نریندر مودی اور ہندوتوا کی حمایت میں پالیسی میں تبدیلی واضح طورپر محسوس کی جانے لگی ۔ بھارت میں صحافت پر پابندیوں کو لے کر جاری بحث میں انکشاف ہوا ہے کہ این ڈی ٹی وی کو گزشتہ چند برسوں میں کاروباری طور پر اس قدر مفلوج کردیا گیا تھا جس کے بعد اس کیلئے اپنی نشریات کو جاری رکھنا ناممکن بنادیا گیا تھا۔ اب اطلاعات ہیں کہ گوتم اڈانی مزید دوبھارتی نجی ٹیلی ویژن چینلوں میں حصہ داری کی کوششوں میں ہے۔ رویش کمارجس نے نریندر مودی اور ہندوتوا کی حمایت کرنے والے نجی میڈیا کیلئے گودی (گود میں لیا گیا )میڈیا کی اصطلاح استعمال کی اور یہ اصطلاح بھارتی صحافت میں زبان زدعام ہوگئی۔ اُسی رویش کمار نے این ڈی ٹی وی سے استعفیٰ کے بعد کہا ہے کہ بھارت میں جمہوریت کے بعد اب آزادی صحافت کا گلا گھوٹنے کیلئے سرمایہ داروں کو استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس نے سوال اٹھایا ہے کہ گوتم اڈانی کی دولت جو 2014ء میں صرف سات ارب ڈالر تھی وہ نریندر مودی کے دور حکومت میں بڑھ کر 110ارب ڈالر تک کیسے پہنچ گئی جس میں مزید اضافہ تیزی سے جاری ہے ۔ رویش کمار کا کہنا تھا کہ بھارت کے تین بڑے ہوائی اڈوں کے حقوق اور ریلوے کے بہت سے ٹھیکے گوتم اڈانی کو دیے جانے کے بعد اب نریندر مودی بھارتی میڈیا پر بھی گوتم اڈانی کا کنٹرول چاہتا ہے ۔ این ڈی ٹی وی کی خفیہ فروخت پر تبصرہ کرتے ہوئے برسلز میں قیام پذیر Foreign Policy (FP)کی کالم نگار آنچل وہرانے Indian's Free Press Just Became Less Free کے عنوان سے اپنے حالیہ کالم میں نریندر مودی سرکار کی بھارت میں آزادی صحافت کے خلاف پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارت میں انسانی حقوق کیلئے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی بھی اس موضوع کو زیربحث لاچکا ہے۔ بھارت میں آزادی اظہار کیلئے سرگرم گیتا سیشو کہتی ہے کہ بھارت میں سچ بولنے والے صحافیوں کا گلا گھوٹنے کا وہ سلسلہ جو گزشتہ چند برسوں سے جاری تھا۔ اب اس میں شدت آگئی ہے اور آزادی اظہار پر یقین رکھنے والے صحافیوں پر بھارت میں زمین تنگ کردی گئی ہے ۔ گیتا اپنی تنظیم کے ذریعے جیل میں قیدان درجنوں صحافیوں کیلئے قانونی جنگ لڑنے میں مصروف ہے ۔ جنہیں نریندر مودی کی اقلیتوں کے خلاف پالیسیوں پر تنقید کرنے کے جرم میں ایک سال قبل یا اس سے بھی پہلے گرفتار کیا گیا اور ان کی ضمانتیں بھی نہیں ہونے دی جارہیں۔ بھارت میں نریندر مودی سرکار کے آزاد نجی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر بڑھتے ہوئے کنٹرول پر تبصرہ کرنے والے بھارتی دانشوروں کی اکثریت اس ایک نقطے پر متفق ہے کہ اس کا سب سے زیادہ اثر اقلیتوں اور ان کے حقوق پر پڑے گا جوپہلے ہی پامالی کا شکار رہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...