حلال فوڈ سرٹیفکیشن کیلئے عالمی معیارات کو مدنظر رکھا گیا ،شفقت رسول گھمن 


لاہور(کامرس رپورٹر ) قومی حلال گریڈ فریم ورک تیار کرنے کے لیے اوئی آئی کی طرف سے حلال فوڈ سرٹیفیکیشن کے لیے پہلے سے تیار کردہ فریم ورک سمیت بہترین عالمی معیارات کو مدنظر رکھا گیا ہے جس کا مقصد شفافیت، کاروبار کرنے میں آسانی لانا اور برآمدکنندگان کے لیے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرٹیفیکیشن کے قیام میں مدد کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار چیئرمین پنجاب حلال ڈویلپمنٹ ایجنسی چوہدری شفقت رسول گھمن، ڈی جی پاکستان حلال اتھارٹی اختر اے بھوگیو، پروفیسر ڈاکٹر فقیر محمد انجم، لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 
چیئرمین پنجاب حلال ڈویلپمنٹ ایجنسی چوہدری شفقت رسول گھمن نے کہا کہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ یہ پہلا آگاہی سیشن ہے، یہ پہلا سیشن سٹیک ہولڈرز کو فریم ورک کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرٹیفیکیشن اتھارٹی کا اضافی کام ہے، باڈیز کو کیری آؤٹ سرٹیفیکیشن کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور تجارتی سرٹیفیکیشن اور ریگولیشن نافذ کرنا اس اتھارٹی کا بنیادی کام ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امپورٹ کا معاملہ اتھارٹی کا سب سے اہم کام ہوگا۔ڈی جی پاکستان حلال اتھارٹی اختر اے بھوگیو نے کہا کہ تمام صوبائی حکام پاکستان حلال اتھارٹی کی مدد کریں گے۔ ان کے لیے فریم ورک بناتے وقت تمام بہترین بین الاقوامی معیارات بشمول شفافیت، کاروبار کرنے میں آسانی، بین الاقوامی معیارات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یونٹ کو بند کرنا یا سیل کرنا اتھارٹی کی پالیسی نہیں ہے، سب سے زیادہ توجہ معیار اور حلال کی یقین دہانی کا نظام بنانا ہے اور یہ نظام اتنا پر اعتماد ہو کہ اتھارٹی کو چھاپہ مارنے کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ کاروبار کی ساکھ بنانے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور چھاپے اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام رولز تھرڈ پارٹی کی اسیسمنٹ سے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح، ادارے سرٹیفیکیشن میں تیسرے فریق کے طور پر کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اتھارٹی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ برآمد ہونے والی مصنوعات کو کلیئرنس کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ اتھارٹی او آئی سی کے مجوزہ معیارات پر عمل پیرا ہے۔انہوں نے کہا کہ حلال ریگولیشن کی منظوری وفاقی کابینہ نے 2021 سے دی ہے، ہم نے اسے ابھی تک نافذ نہیں کیا کیونکہ ہم ہوم ورک کے بغیر کام نہیں کرنا چاہتے۔انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ملک سے سرٹیفیکیشن کے حوالے سے کوئی بھی ریمارکس وفاقی حکومت سے متعلقہ ہوگا جبکہ صوبائی حکام مدد کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ایک تجویز سامنے آئی تھی کہ 500-600 انسپکٹرز کو اسیسمنٹ کے لیے بھرتی کیا جانا چاہیے جو کہ ایک طویل المدت حل تھا، ہم نے مناسب سمجھا کہ قواعد و ضوابط وضع کیے جائیں جو مناسب مشاورت کے بعد نافذ کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ان پٹ نہ ہو۔اگر آپ پہلے ہی پروڈکٹ کے لیے رجسٹرڈ ہیں، تو آپ کو سرٹیفیکیشن کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام بندرگاہوں، صوبوں پر حکام کا دفتر قائم کیا جائے گا جبکہ مرکزی دفتر وفاقی سطح پر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ 12 ممالک کے ساتھ ایم او یوز کا مسودہ تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پروڈکٹ پر یہ لکھا ہو کہ کوئی چیز حلال نہیں ہے تو اسے ٹیسٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ لاہور چیمبر چین اسٹورز اور ایف ایم سی جی کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کو اتھارٹیز کے ساتھ رابطے میں لائے گا۔انہوں نے تاجر برادری، تجارتی تنظیموں، چیمبر آف کامرس اور حلال سیکٹر سے متعلق دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے پر پنجاب حلال ڈویلپمنٹ ایجنسی کی کوششوں کو سراہا۔کاشف انور نے کہا کہ ’’حلال‘‘ ایک بین الاقوامی برانڈ ہے اور حلال فوڈ سیکٹر اب ٹریلین ڈالر کی معیشت بن چکا ہے۔ پاکستان حلال مصنوعات کی پیداوار اور فروخت کے تمام مراحل کا قدرتی مرکز ہے لیکن اس کے باوجود یہ شعبہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مناسب حصہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ 'حلال لیبل' دنیا بھر میں ایک اچھے معیار کی مصنوعات کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بہت سے غیر مسلم ممالک بھی حلال لیبل کے ساتھ اپنی مصنوعات بنا رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حلال کاروبار کا بڑا حصہ غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور نجی شعبہ مل کر اس سلسلے میں کام کریں تاکہ آنے والے سالوں میں پاکستان ا س شعبہ کا لیڈر بن جائے۔

ای پیپر دی نیشن