ُُُپنجاب اسمبلی نہیں ٹوٹے گی۔ پنجاب اسمبلی ٹوٹنی بھی نہیں چاہیے۔ عثمان بزدار نے چار سال میں جو بیڑہ غرق اور تبا ہی بربادی پنجاب میں مچائی تھی اور لاہور کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔ شکر ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے چند ماہ میں لاہور کو بہتر کیا ہے۔ پرویز الٰہی کا سابقہ ریکارڈ بھی شاندار ہے۔ وہ صوبے کو ترقی دینے والے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ سندھ بلوچستان اور خصوصاً خیبر پختونخواہ میں جو بدترین حالات ہیں۔ تینوں صوبوں میں نحوست پڑی ہے۔ اس کے مقابلے میں چوہدری پرویز الٰہی ایک مدبر اور ذمہ دار وزیر اعلیٰ ثا بت ہو ئے ہیں۔ ٹھنڈے دھیمے مزاج کے سلجھے ہوئے اور ہمدرد انسان ہیں۔ جب ایک وزیر اعلیٰ بہترین خدمات انجا م دے رہا ہے تو پی ڈی ایم کو کیا تکلیف ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ضد کریں۔ پی ڈی ایم کی نا لائقیوں سے پورا ملک بحران کا شکار ہے۔ ملک میں آٹا چاول چینی بلکہ تمام زرعی اجناس کی قلت ہے اور قیمتیںآسمانوں سے باتیں کر رہی ہیںَ ۔ ملکی معیشت دا ئو پر لگی ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ پاکستان کی تا ریخ میں 2022ء سب سے بُرا سال رہا ہے۔ ویسے تو ان نام نہاد حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پورا ملک لوٹ کر کھا لیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو گروی رکھ دیا ہے۔ ان کی حرص و ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اندازہ کریں کہ نواز شہباز، آصف زرداری، عمران خان، فضل الرحمان ،فاروق ستار، اسحاق ڈار، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، خواجہ آصف یہ سب کے سب ستر سال کی عمر سے اُوپر ہیں۔ ان میں کوئی بھی ستر سال سے کم کا نہیں ہے اور ستر سال کی عمر میں لو گ اللہ اللہ کرتے ہیں۔ اپنی آخرت سنوارتے ہیں ۔ افسوس کہ یہ سارے کے سارے سیاستدان اقتدار کے لیے مر ے جارہے ہیں۔ ہنسی آتی ہے جب عمران خان اقتدار میں تھے تو فواد چوہدری ، اسد عمر ، مراد سعید، اعظم سواتی، فیصل جاوید وغیرہ کہتے تھے کہ عمران خان 2023ء میں بھی وزیر اعظم ہو گا۔ بلکہ 2033ء میں بھی عمران خان ہی وزیر اعظم ہو گا۔ وہی کہ ، ’سامان سو برس کا اور پل کی خبر نہیں‘ ۔ آپ کیا گارنٹی دے سکتے ہیں کہ عمران خان 2028ء یا 2033ء تک زندہ رہے گا۔ پاکستان میں تو موت اسقدر سستی ہے کہ کسی کو کبھی بھی اور کہیں بھی آ جاتی ہے۔ اُس پر ظلم یہ ہے کہ کوئی بھی مر جائے یا مار دیا جائے تو ساری زندگی قاتل پکڑے نہیں جاتے۔ سب سے بڑی مثال تو قائد ملت لیا قت علی خان کی ہے۔ اُس سے بڑی مثال بے نظیر بھٹو کی ہے ۔ انھیں سرِعام شہید کیا گیا اور مالدار شوہر تھا جو فوراً صدر بن گیا لیکن پانچ برس نہایت قوی صدر ہونے کے اپنی بیوی اور پاکستان کی سب سے ذہین، دلیر، طاقتور لیڈر کے قاتل نہ پکڑ سکا۔ چند سالوں میں بلاول بھٹو بھی کڑیل جوان اور رُکن قومی اسمبلی بن گیا۔ پارٹی کا چیئر مین اور ایک انتہائی دولتمند اثر و رسوخ رکھنے والا سیاستدان ، ایک بڑے صوبے کا تمامتر کنٹرول رکھنے والا اور زیرک باپ کے ہوتے ہوئے اپنی ماں کے قاتل نہیں پکڑ سکا۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے لیکن حرص و ہوس میں ڈوبے ان سیاستدانوں کالالچ اور اقتدار کی جنگ کسی طرح ختم نہیں ہو تی۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کو ٹف ٹا ئم دے رکھا ہے۔ سندھ کے بلدیاتی الیکشن ایک سزا ثا بت ہونے والے ہیں۔ ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ ڈنڈی مارتی ہے۔ دوسری طرف نواز شریف اس چکر میں ہیں کہ فروری تک پاکستان آکر مریم نواز کے لیے میدان صاف کیا جائے جبکہ شہباز شریف اِس زعم میں مبتلا ہیں کہ بڑا بھائی صا حب پاکستان آ کرپیٹھ تھپکیں گے۔ شہباز شریف کو یہ بھی خوش فہمی ہے کہ وہ پاپولر وزیر اعظم بھی ہیں جبکہ انھیں ہر پارٹی، سیاستدان اور ہر پاکستانی ایک ناکام ترین وزیر اعظم قرار دے چکا ہے۔ شہباز شریف ملک چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بد اعمالیوں اور بد اعنوانیوںکی وجہ سے اس عظیم ، شاندار، وسیع وعریض، زرعی معد نیاتی مو سمیاتی اور قدرتی نعمتوں سے مالا مال ملک آج بربادی کے نو حے پڑھ رہا ہے۔ پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جس کی عوام سب سے زیادہ ٹیکس دیتی ہے اور ہر چیز پر عوام ٹیکس ادا کرتی ہے لیکن عوام کو رات دن ٹیکس ادا کرنے کے با وجود کو ئی سہولت میسر نہیں۔ اُنکے مستقبل کی کو ئی گا رنٹی نہیں۔ اُنکے لیے کو ئی نوکری نہ کو ئی صحت نہ کو ئی تعلیم نہ کو ئی بہبود۔ ہر طرف تا ریکی مایوسی اور اندھیرے ہیں۔ پاکستان کے حالات زندگی 2023ء میں انیسویں صدی جیسے ہیں لیکن حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جائیدادیں دیکھ لیں جو پاکستان تو کیا، پاکستان کے علاوہ ایک ڈیڑھ درجن ممالک میں جا بجا پھیلی ہو ئی ہیں۔ حکمران سیاستدانوں نے اپنے اقتدار کی بھوک کے لیے کئی اداروں میں شدید کرپشن کو رواج دیا۔ ہرنا جائز غلط کام کیے۔ پہلے خود اقتدار کے مزے لوٹے۔ اب اولادوں کو وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور ارکان اسمبلی بنوانے کے درپے ہیں۔ اس پر جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ پاکستان کی ساکھ اور اقتصادیات کو سب سے زیادہ نقصان سابق وزیر اعظم عمران ؎خان نے پہنچایا۔ پہلے بڑہکیں لگا ئیں کہ ہماری پو ری ٹیم کی تیاری ہے۔ سب ایکسپر ٹ ہیں پھر معیشت کا دیوالیہ کر کے کہا کہ ہماری تو تیاری نہیں تھی۔ ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ ہم سب سے غلطیاں ہو گئیں۔ ہم سے جھوٹ بو لا گیا۔ اقتدار رنگ رلیوں کانام نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے جہاں ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ کل تک جنرل(ر) قمر باجوہ کی تعریفوں کے پُل باندھے جاتے تھے اور آجکل رات دن گالیاں دی جاتی ہیں۔اب جب ملک با لکل کنگلا کر دیا ہے تو پھر بھی ا قتدار کی بھوک ستا رہی ہے۔ ان سب موجودہ سیاستدانوں میں سے کو ئی بھی پاکستان یا عوام سے ایک فیصد بھی مخلص نہیں ہے۔ کم از کم ایسٹبلشمنٹ کو چا ہیے کہ پاکستانیوں کو اذیت سے نکالیں۔ ایک ٹیکنو کریٹ حکومت تین سال کے لیے بنائیں اور ان تمام سیاستدانوں حکمرانوں ، ان کے آلہء کاروں کا صفا یا کریں۔ صرف بیس وزراء کی کابینہ ہو۔ اشرافیہ کی تمام عیاشیاں، مرا عات ختم کی جائیں۔ نیک نام اور کام کرنے والے باکردار لوگ شامل کیے جائیں۔ پاکستان میں جمہوریت ایک ناکام پریکٹس ہے۔ یہاں ڈنڈے سے بات سمجھ آتی ہے۔ اس ملک کو ڈنڈے کے ذریعے ہی ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔