آج اگر ایک طرف ماہر جینیات ڈاکڑ سپیکڑ چھوٹے سے جرثومے ،، مائکروب،، جو کہ انسانی آنت، اورانسانی جسم کے اور حصوں میں موجود ہوتا ہے کو بنیاد بنا کر ، اپنی ریسرچ میں ہماری روزمرہ کی خوراک کی اہمیت کو اس قدراہمیت دیتا ہے کہ وہ انسانی،، جین،،، کو بھی قابل تبدیل قرار دیتا ہے۔ اس طرح آج ،،سٹیم سیل،، سے نا صرف بڑھتی ہوئی عمر بلکہ اکثر بشمول دل کی بیماری کے علاج کا کامیاب تجربہ ہو رہا ہے ۔ اس طرح نہ صرف ،،الزائمر ،،کی بیماری قابل علاج ہو گئی ہے جو کہ آج سے چند سال پہلے ناممکن تصور کی جاتی تھی ،یاد رہے امریکی صدر ریگن بھی آخری چند سال اس بیماری کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے تھے، اس طرح یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کو سٹیم سیل کے علاج سے دس سال تک تو اب یقینی روکا جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ایسے ہی وینٹیلیڑر سے کسی قریب الموت انسان کے مصنوعی سانس بحال رہتی ہے اس کے دماغ کی موت ہوچکی ہو اور پھر عدالتوں کو آخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ بیشک مصنوعی سانس جاری ہے لیکن ایسی زندگی کو لامحدود حد تک گھسیٹنا مناسب نہیں ۔ یاد رہے وزیر اعظم ایرول شیرون کو بھی کئی مہ ماہ تک وینٹیلیٹر تک رکھ گیا تھا لیکن آخر اس کے لواحقین اور اسرائلی حکومت نے اس مصنوعی زندگی سے شیرون کو نجات دلائی اور وہ جسمانی موت کا شکار ہوا ۔ابھی کل ہی بات ہے کہ ، کوووڈ،، لا علاج سمجھا جا رہا تھا ، لیکن آج اس سے کوئی اموات نہیں ہو رہی۔ایسے ہی پنسیلین بھی کئی، انفیکشنز بشمول چھاتی کی اموات اور ٹی بی سے اموات میں کمی کا باعث بنی۔ سائنسی ترقی سے بلا شبہ انسانی اوسط عمر جو کسی زمانے میں چالیس سے پچاس تک سمجھی جاتی تھی، آج پیس میکرز ۔ ونٹیلیڑرز، ریسرچ سے بڑھ کر ترقی یافتہ ممالک میں،، اسی سال سے اوپر چلی گئی ہے۔سرجری میں نت نئی ایجادات نے روباٹک سرجری کا دروازہ کھول کر جغرافیائی حدود بھی ختم کر دی ہیں کم سے کم خون بہائے بغیر سرجری عملی طور پر ہو رہی ہے بلڈ کی بیماریوں ، ہیموفیلیا، شوگر کی بیماری کے حامل والدین کے بچوں کو شوگر سے بچانے کے لئے پیدائش سے پہل انٹرایوٹیرائن جین میں علاج شروع ہو چکا ہے ۔سٹیلائٹ اور ڈرون ، سپیس سٹیشنوں سے لوکیشن سے لے کر آپ کے گھر کے اندر تک موبائل کے ذریعے ٹیکنالوجی دخول کر گئی ہے۔ اب سلیکان، چپ، ڈیجیٹیل ٹیکنالوجی سے طوفان آچکا ہے ناممکنات ممکنات میں بدل چکی ہیں۔ اوشیز سمندروں سے لے کر خلا تک جانورں کی زندگی سے کر ہر چرند پرند ہر جاندار کی زندگی میں انقلاب آرہا ہے جس سے روائتی سوچوں میں تبدیلی آنا لازم ہے کل کے ،،ہیروز آج کے زیروز ،، نہ ہو جائیں۔دنیا میں آج موجود چار ہزار سے زائد مذاہب روح کا ہر مذہب کا الگ تصور ، خدا کا ہر ایک مذہب کا کسی نہ کسی مختلف شکل میں موجود ہونا بھی ہے۔ بلاشک یہ گھڑی ہی نہیں ہر گھڑی محشر کی ہونے کو ہے ، علامہ اقبال کا یہ کہنا ۔،، ذرے کادل چیرے، سورج کا خون نکلے ،،بہت پرانی بات نہیں ۔کائنات میں سورج سے بڑی ،ہماری کائنات سے بڑی دنیائیں آباد ہیں جن میں کسی بھی وقت زندگی کے آثارموجود ہونے کو ہیں۔ نظام شمسی سے باہرایک چھوٹے سے ستارے کے پاس دو ایسے سیارے حیران کن طور پر دیکھے گئے ہیں جو اس ستارے کے گرد گردش کر رہے ہیں اور جن میں پانی کی کثیر مقدار پائی جا تی ہے۔ ایسے میں خلا میں آج یا کل ایسی ہماری زمین جیسی اور دنیائیں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ سپارکو کے چیئرمین نے خلا کے بارے میں ٹھیک کہا تھا کہ ہم ایک لمبی میز کی ایک نکڑ پر کھڑے ہیں۔ جب کے اتنی بڑی میز کی وسعت کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور ہم صرف تصور سے ہم بھی اس بڑی میز کی حدود کا تعین نہیں کر سکتے۔میں کچھ ہوشربا سائنسی انکشافات پر ابھی لکھ رہا ہوں لیکن یہ تما م انکشافات مغربی دنیا کی تحقیقات کا حاصل ہیںجس میں ہمارے ملک یا ہماری اسلامی یا تیسری دنیا کا کوئی حصہ نہیں ۔ ہم یہ مانیں یا نہ مانیں مغربی دنیا میں میرٹ اور انصاف کا بول بالا ہے بے شک ان کی حکومتیں دوسری قوموں کے لئے کتنی خوفناک پالیسیاں، ظالمانہ اعمال کررہی ہوں، لیکن ان کے اپنی قوم کے ہر شخص کے لئے عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے ۔ وہ سچ جس کی دلالت کرتا ہوا سقراط زہر پی گیا تھا، اور جس کا حکم ہمارے مذہب میں بھی ہے ، صرف اس سے انحراف ہونے کے سبب ہماری قوم نے تحقیق توکیا ، اپنے تما م ادارے ہی جھوٹ ، کرپشن اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے حوالے کر دئے ۔ کاش ہم آج بھی یہ عہد کریں کے ہم نے انفرادی طور پر کبھی سچ سے روگردانی نہیں کرنی، حق کا ساتھ دینا ہے، کمزور کو اس کا معاوضہ برابری کے بنیاد پر دینا ہے تو ہم بھی اسی کائنات کے سینے کو پھاڑکر نت نئی تحقیقات کر کے اپنا نام بلند کر سکتے ہیں۔