مہنگائی کا جن قابو کیجئے!



پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ایک شہر سے متعلق آٹے کا خریدار نوجوان اس وقت رونے لگا جب وہ کوشش کے باوجود سستے آٹے کا تھیلا حاصل نہ کرسکا۔ وہ ٹی وی اینکر کو بتا رہا تھا کہ جب وہ آٹا لئے بغیر گھر لوٹے گا تو بچوں کے سوال کا سامنا کیسے کرے گا؟ 7 جنوری کو آزاد کشمیر سے دل شکن خبر سننے کو ملی  سرکاری سطح پر سستا آٹے پانے کی خواہش لنے ایک غریب محنت کش  کی جان لے لی۔ تمام ٹی وی چینلز نے اس دردناک لمحات کی تفصیلات کو  نیوز بلٹن کا حصہ بنایا۔ بتایا گیاہے کہ میرپورخاص کے علاقے گلستان آباد کا آٹھ بچوں کا والد علی اعوان آٹا ٹرک کے قریب ہوا ،بھگڈر کی وجہ سے وہ زمین پر گرا اور پھر روندا گیا۔ غریب اور مجبور شہری کو طبی امداد دینے کی سعی کی گئی لیکن وہ دکھوں‘ مصیبتوں اور مشکلات کی دنیا سے ’’آزاد ‘‘ ہو چکا تھا۔ سستے آٹے کی حسرت لئے وہ بیچارہ کشمیری دنیا سے رخصت ہوا ۔ ڈپٹی کمشنر نے تین روز میں انکوائری رپورٹ طلب کی ہے اس کے بعد کیا ہوگا؟ ٹرک آیا کرے گا‘ ایک پولیس کانسٹیبل کی ڈیوٹی لگا دی جائے گی کہ وہ مرد وخواتین کی قطاریں درست کرے اور بس…!مرغی کا گوشت ‘ انڈے‘ آٹا اور پیاز سمیت ضروریات زندگی کی بنیادی چیزوں کے نرخ بلند ترین شرح کو چھو رہے ہیں۔ ماہانہ‘ ہفتہ وار اور روزانہ کی بنیاد پر اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں! مجال ہے کہ پولیس‘ ضلعی انتظامیہ‘ پرائس کنٹرول/ کمیٹیوں اور محکمہ فوڈز کو عوامی مشکلات کا ادارک اور احساس ہو۔ سرکار کے ملازم جنہیں خادمین کی طرح خدمت کا فریضہ ادا کرنا تھا وہ دفاتر میں جلوہ افروز ہو کر شاہی فرمان جاری کرکے اپنی ڈیوٹی ادا کررہے ہیں۔آٹے قلت ساتھ ساتھ  وطن عزیز کے 23 کروڑ لوگ اور خا ص کر پڑھے لکھے جوان بچے اور بچیاں بے روز گاری ، مہنگائی، غُربت ، بھوک  افلاس اور لاقانونیت کی وجہ سے چکی میں پس رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہاں مختلف قسم کے بحرانوں کے ذمہ دار کون ہیں؟۔ 77 سالہ تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو ان  تمام بحرانوں کے ذمہ دار ہمارے سیاست دان اور بیوروکریٹس ہیں۔ سب نے ملکر پاکستان کو تلافی نقصان پہنچایا۔ عمران خان نے  اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں وطن عزیز کو جو نقصان پہنچایا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خان صاحب نے ساڑھے تین سال میں جتنا قرضہ لیا وہ  70 سالہ قرض کے برابر ہے۔ عمران  دور اقتدار میں کوئی خاص منصوبہ یا میگا پروجیکٹ بھی  شروع نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے پونے چار سال کے عرصہ میں پاکستان کا  30 ہزار ارب روپے سے 54 ہزار ارب روپے تک پہنچ کیا۔ اگر ہم  پیپلز پا رٹی ، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے تمام لئے گئے قرضوںکا تقابلی جائزہ لیں تو  پیپلز پارٹی نے 2008 سے 2013 تک اپنے دور میں قرضہ 6 ہزار ارب  سے 16 ہزار ارب تک پہنچا یا۔  مسلم لیگ (ن ) نے2013 سے 2018 تک دور میں قرضہ 16ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے تک پہنچایا اور تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں یہ قرضہ 30 ہزار ارب روپے سے 54 ہزار ارب روپے تک پہنچا یاگیا ۔ بالالفاظ دیگر اگر ان تین سیاسی پارٹیوںکے ادوار کے یومیہ قرضہ لینے کا تجزیہ کیا جائے توپی پی دور میں وطن عزیز کا یومیہ قرضہ 5ارب روپے کے حساب سے لیا گیا ، نواز شریف دور میں یہ قرضہ 8 ارب روپے یومیہ اور پی ٹی آ ئی دور  میں یہ قرضہ 17 ارب روپے یومیہ تک پہنچا۔   عمران خان کے پونے چار سال دور میں ہر سال 5 ہزار ارب روپے سے زیادہ ٹیکس بھی جمع ہوتا رہا ۔ کرونا کی مد میں بیرونی دنیا نے وطن عزیز کو ساڑھے تین ارب ڈالر دئے مگر سمجھ نہیں آتی کہ یہ تمام پیسے کدھر  اور کہاں خرچ ہوئے؟۔ جب سے شہباز شریف کی قیادت میں 13 سیاسی پارٹیوں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی ہے تو انہوں نے بھی 9 مہینے  میںکوئی خاص کام نہیں کیا ۔نتیجتاً بجلی ، گیس لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی ، بے روز گاری اور لاقانونیت میں بے تحا شا اضافہ ہوا۔عوام یہ سوچتے تھے کہ پی ڈی ایم جو ماضی قریب میں  دعوے کرتے تھے انکا کیا بنا؟ ۔ادھر عمران خان نئے  الیکشن کا مطالبہ کر رہا ہے حالانکہ کپتان یہ بھول رہے ہیں کہ 75 فی صد پاکستان یعنی پنجاب ، کے پی کے ، گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر اور بلوچستان میں انکی حکومت ہے اگر خان صاحب واقعی ملک اور عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے تو  ان صوبوں میں اچھی حکمرانی کرکے عوام کے لئے کچھ کیا جا سکتا تھا…بازاروں اور مارکیٹوں کیساتھ سستے بازاروں میں خریدار حالات کا نوحہ پڑھ رہے ہیں اور خادمین قوم عوامی مشکلات اور  مسائل سے کوئی غرض نہیں ۔کبھی ہم دو تین کلو چینی کے لیے یوٹیلیٹی سٹورز کے باہر لمبی لائنیں دیکھتے تھے اور آج سستے آٹے کے لیے سرد موسم میں سڑکوں پر مجبور شہریوں کو قطاروں میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ زرعی ملک کے آزاد شہری ہیں؟ وہ یہ آزادی شہری ہیں جو ضرورت کی اشیاء اپنے پسند کے نرخ پر حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ 600 روپے کلو مرغی کا گوشت اور 300 روپے فی درجن انڈے خریدنے پر مجبور ہیں ان کے لیے پیاز ڈالر کے نرخ کے برابر ہے۔کیا دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے والے ملک کی حالت ایسی بھی ہوسکتی ہے! ہمیں اپنی زراعت اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے انقلاب آفرین اقدامات کرنے پڑیں گے۔ زرعی زمینوں پر تیزی سے بننے اور پھیلنے والی رہائشی سکیموں کی پیش قدمی روکنی پڑے گی۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن لانا پڑے گا اگر ایسا نہ کیا تو شکائتیں اور مسائل رکنے کا نام نہیں لیں گی۔

ای پیپر دی نیشن