ڈاکٹر طاہر بھلر
قارئین یہ ستر کی دہائی سے کچھ پہلے کی باتیں ہیں کہ راقم ایک دن اپنے سکول عطا محمد سکول جواس وقت گوجرانوالا کے بہترین سکولوں میں شمار ہوتا تھا کے اس کے وقت کے نامور استاد جن کا تخلص ،،مجروح ،، تھا کے پاس کمال شوق سے ڈگ بھرتا ہوا پہنچا اور عرض کیا کہ سر مجھے بھی ٹیوشن پڑھایا کریں۔ انہوں نے پہلے مجھے غور سے دیکھا اور پوچھا کہ کیا کہہ رہے ہو، اور جب انہیں میرے ٹیوشن پڑھنے کا یقین ہوا تو انتہائی جلالی طبیعت میں کہا ، کہ تمیں کس گدھے نے یہاں بیجا ہے، بھاگ جاو یہاں سے اور آئیندہ ادھر منہ نہ کرنا ، تمھیں ٹیشن پڑھنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس وقت اس سکول میں داخلے کے لئے باقاعدہ ٹیسٹ دینا پڑتا تھا۔ یاد رہے میں بھی بغیر کسی سفارش کے اس ٹیسٹ میں کامیاب ہو کر اس سکول میں داخل ہواتھا جس سے بعد ازاں ہمارے ماضی اور موجودہ دور کے کئی وفاقی سیکرٹریز، مایہ ناز ڈاکڑز، اور ہر فیلڈ میں نام کمانے والے آفیسر اور شہرہ آفاق شخصیات تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوئی تھیں۔اس زمانے میں عبدلا صاحب ہمارے ہیڈ ماسٹر ہو ا کرتے۔تاہم چونکہ میرے بڑے بھائی اے ڈی ماڈل میں پڑھایا کرتے، تو وہ مجھے اس سکول کے حافظ جلال صاحب سے اردو کے لئے بھجتے ۔ وہ بھی ایک کمال کے استاد تھے اور بعیر کسی قسم کے فائدے کے مجھے کافی دیر اردو کے اسرارو رموز بتاتے۔ جناب منظورالحسن صاحب جو اے ڈی ما ڈل سکول کے اس وقت ہیڈ ہو کرتے تھے،، ان کی شائتگی اور غریب پروری کے قصے زبان زد عام تھے۔ خواجہ صدیق اکبر اور میں ایک بنچ پر بیٹھ کر سبق سنایا کرتے۔وہاں بورڈ پر آویزاں پرانے پوزیشن ہوبڈرز کے تا ابھی تک کندہ ہیں ان میں نعیم احتر سالک، راقم ،یوریلوجسٹ شوکت زبیر، صولت ناگی میرے سکول فیلو تھے جبکہ اس وقتیوسف بھٹی عمر فاروق، شاہد چوہان اے ڈی ماڈل سکول میں پڑھا کرتے تھے۔ جناب یوسف بھٹی نے اس وقت بورڈ میں پوزیشن حاصل کر کے نام کمایا ۔ جو بعد ازاں جناب نعم سالک نے عطا محمد سکول سے حاصل کیا ۔ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ،،مائٹ از رائٹ،،کی اس دنیا میں اس زمانے میں بہحر حال نہ صرف امیر اور غریب میں کوئی خاص فرق نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ بعض اوقات تو ہمارے جیسے درمیانے طبقے سے بھی نیچلی کلاس سے طبقے کے طلبا کو بظاہر کھلے عام ترجیح دی جاتی اور ہر کسے مساوی سلوک ہی نظر آتا چہ جائکہ آج کے اس مادہ پرستی کے دور میں جہاں بیکن ہاوس ، قیو ڈی پی ایس، گرامر سکول وغیرہ اشرافیہ کی سکولیں سر عام غریب طبقے کے لئے نہیں رہیں اور نہ عام آدمی ان کو ڈونیشن دینے کے قابل ہے ۔ یہ ہماری پرانی سکولیں عمارت کے لحاظ سے قدیم نظر آتیں ہوں گی لیکن معیار کے لحاظ سے آج کے بڑی بلڈنگز والی سکولوں سے بہتر تھیں معیار ، فیسوں اورذہنی رجحان سازی و اخلاقیات میں معمولی فیسیں ادا کر کے آج ہم اکثر سادگی سے بنی ہوی ان سکولوں سے فارغ تحصیل ہونے والے تقریرو نحریر اور ہر شعبے میں اپنی ان پرانی اور چھوٹی سکولوں کا نام تمام دنیا میں پھلا چکے ہیں۔ جبکہ آج کل کی گورنمنٹ سکولوں کا اخلاقی اور تعلیمی معیار اس وقت کے مقابل گرچکاہے جس کی وجہ صرف سفارش، امیراور غریب میں نفرت کی حد تک بڑھتا ہو ا فرق، نعلیم کی طرف کم توجہ اور پیسے کمانے کی طرف بڑھتا ہوا رجہان شامل ہیں۔ آپ ہر سکول میں ہر ٹیچر کو ٹیوشن پڑھاتا ہوا روزانہ دیکھ سکتے ہیں اور ہر پریکٹیکل میں اپر کلاس اپنے نمبراضافی لگوانے میں کامیاب رہتی ہے۔آج آپ بیئوروکریسی سمیت تمام تیکنیکی اداروں اور اہم پوسٹوں پر پرانے زمانے کے مقابلے میں اپر کلاس کے زیادہ لوگ دیکھ سکیں گے۔انتہائی پروفیشنل انداز میں تقریری مقابلوں کی تیاری کرائی جاتی تھی ان اداروں میں، گیموں اور سپورٹس اور میں خصوصی توجہ دی جاتی اور آج کے نامور مقررین میں اس زمانے کے ان تاریخ رقم کرنے والے اساتذہ جیسے حافظ حاجی احمد، قاضی فاضل،قاضی منور صوفی محمد حسین، ماسٹر مجروح، چافظ جلالخ ملک منظور اپنے طلبا کو خصوصی ذہن سازی اور اخلاقیات کا درس دیتے اور انہی کی تیار کردہ نسل نے ہر میدان میں بغیر کسی قسم کے اخراجات اٹھائے ہر فیلڈ میں نام کمایا۔قارئین آپ یقین کریں جب وہ دور یاد آتا ہے تو سکول کی گہما گہمی کے ساتھ ہر طرف ایک پرسکون ماحول، پر وقار اساتذہ اور تقریری سے لے کر سپورٹس اور تعلیمی اعلا کارکردگی نظر آتی ہے اور آج کل کے دور کے برعکس ایک خالص مساوی بنیادوں پر پڑھائی کا ماحول اور اساتذہ کی پدرانہ شفقت ، ہر کلاس روم میں طلبا کی سو فیصد حاضری اور بڑے نام نامی نظروں کے آ گے گھوم جاتے ہیں ۔اس وقت کا یہ سکول گوجرانوالا کا ایچیسن نہیں تو لاہور کے سنٹرل ماڈل سکول سے کم نہیں اور آج کے کسی بڑے سے بڑے اور مہنگے سے مہنگے سکول کے معیارسے کم نہیں۔کاش ایسے اساتذہ اب دیکھنے کے جن کو آنکھیں ترستیاں ہیں ،وہی بادہ جام کی تلاش ہے جاری، ایسا کہاں سے لاوئں تجھ سا کہوں جسے ،کیوں شوخی میں کھو دئے وہ لوگ ڈوھنڈا تھا آسماں نے جنھیں خاک چھان کے۔آج کے ان بلندوبالا سکولوں کے مقابلے میں میری پرانی سادہ سے سکول رہن سہن ، سادہ اساتذہ و شاگرد واپس آ جایں جہاں غریب و امیر ایک ہی اخلاقیات کے چشمے سے سیراب ہوتے۔انسیت ، پیار، ربط،ملاپ احساس ہر چیز پر حاوی ہوتے۔کہاں گئے وہ ورڈر ورتھ کی ،،لائف آف این اپرائٹ مین،، والے ہمارے رہن سہن و سوچ کے وہ دن ۔کہیں سے ہمارا پرانا کلچر وہیں سے ، ہماری پرانی سکولوں کے واپس آ جانے سے شروع ہو جاوے۔ وہی مروت، شفاشفیت، بیساختگی اور اخلاقی اقدار میں گھوندا ہو اماحول اور میرٹ پر مساوی عمل۔