جنرل مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ

آئین شکنی کرنے والے آمروں کے حوالے سے پاکستان کی عدالتی تاریخ افسوس ناک رہی ہے- اقتدار پرست آمر جرنیل وقفے وقفے کے بعد رائج آئین توڑ کر اقتدار پر قابض ہوتے رہے - اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے آئینی حلف کی پاسداری کرنے کی بجائے آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو قانونی جواز بخشتے رہے جسے نظریہ ضرورت کا نام دیا گیا- افسوس ناک تاریخ کے پس منظر میں سپریم کورٹ کا جنرل مشرف کی سزا کے سلسلے میں حالیہ فیصلہ خراج تحسین کا مستحق ہے جس کے مطابق خصوصی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا ہے- 2013ء میں وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کی وساطت سے جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست دائر کی تھی- پاکستان کے نامور بیرسٹر اکرم شیخ کو چیف پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا تھا- جنرل پرویز مشرف کے خلاف الزام تھا کہ انہوں نے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی نافذ کرکے 1973ء کے آئین کو معطل کر دیا تھا اور 61 ججوں کو گھر بھیج دیا تھا- اس طرح انہوں نے آئین کے آرٹیکل 6 کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنگین غداری کا ارتکاب کیا تھا- جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دی گئی جس نے طویل سماعت کے بعد 17 دسمبر 2019ء کو جنرل مشرف کو غیر حاضری میں سزائے موت سنادی اور قرار دیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑ کر سنگین غداری کے مرتکب ہوئے ہیں- عدالتی تاریخ کا یہ پہلا فیصلہ تھا جس کے مطابق ایک سابق آرمی چیف کو اس کی زندگی میں سزائے موت سنائی گئی- جنرل پرویز مشرف نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی کہ ان کے خلاف مقدمہ سننے والی عدالت آئین اور قانون کے خلاف ہے اور ان کو سنے بغیر سزا دی گئی ہے- جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے قرار دیا کی خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے- کسی کے خلاف غیر حاضری میں ٹرائل کرنا غیر آئینی غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے- لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو تکنیکی بنیادوں پر کالعدم قرار دے دیا- بعد ازاں جنرل پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کی جانب سے اپنے خلاف موت کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ان کے وکیل سلمان صفدر نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو سنے بغیر سزا سنائی گئی ہے اور انصاف کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے لہذا خصوصی عدالت کی سزا کالعدم قرار دی جائے- 
جنرل پرویز مشرف 5 جنوری 2023ء کو وفات پاگئے جبکہ ان کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا تھی-
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی۔ اس بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے- جنرل پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ جنرل مشرف کے ورثاء کو کئی بار اطلاع دی گئی مگر وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے- چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ نہیں چاہتی کہ ورثاء کے حقوق متاثر ہوں اس لیے ان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے قانونی کاروائی پوری کی گئی اور اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کرائے گئے- سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ جنرل مشرف نے ایمرجنسی کا جو فیصلہ کیا اس میں اس وقت کے وزیراعظم، وزیر قانون، پارلیمنٹ اور کچھ جج بھی شامل تھے-پرویز مشرف کو سنے بغیر سزا دی گئی- سپریم کورٹ کے بینچ نے سماعت کے بعد خصوصی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا- جنرل پرویز مشرف چونکہ زندہ نہیں ہیں اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا البتہ علامتی طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے مگر پاکستان جیسے پس ماندہ ملکوں میں ایسی علامتی کارروائیاں ممکن نہیں ہوتیں-
 عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا قانون اکثر اوقات طاقت ور سے خوف زدہ رہتا ہے- آئین توڑنے والے جرنیل جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاء الحق سزاؤں سے محفوظ رہے- کیا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے مستقبل میں مارشل لاء کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔ اس سوال کے جواب کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا - جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999ء کو ایک منتخب حکومت کو بندوق کی طاقت سے گھر بھجوا کر آئین شکنی کی تھی- سپریم کورٹ نے آمر جنرل کے اس اقدام کو جائز قرار دے دیا تھا اور جنرل مشرف کو بوقت ضرورت آئین میں تبدیلی کرنے کی اجازت بھی دے دی تھی- پاکستان کے مقتدر ادارے پاکستان کی بدقسمت تاریخ کی روشنی میں سنجیدہ تجزیہ کریں کہ پاکستان میں بار بار کن وجوہات کی بنیاد پر مارشل لاء لگتے رہے- ان وجوہات کے تناظر میں ایسی متفقہ قومی پالیسی تشکیل دی جائے کہ آئندہ کسی کو منتخب حکومت بر طرف کرنے کی جرأت نہ ہو- عوام کی حکومتیں تسلسل کے ساتھ چلتی رہیں- سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ہو سکتا - پاکستان کے طاقت ور اداروں کو ملکی سلامتی، استحکام اور 25 کروڑ عوام کے اجتماعی مفاد میں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہو گی- عوام کی رائے تبدیل کرنے کی کوششیں ریاست کے لیے خطرناک ثابت ہوتی رہی ہیں- پاکستان کی اصل طاقت اور قوت عوام ہیں جن کا حق حکمرانی سب کو تسلیم کرنا ہوگا -عوام دشمن پالیسیاں ریاست کے لیے سیکورٹی رسک ثابت ہوتی ہیں-
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن