کچھ سوالات

گذشتہ کئی ماہ سے میں سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی سوال یا تبصرہ کررہا ہوں جن کے جوابات بھی ملتے ہیں اورجوابی تبصرہ بھی۔یہ ایک دلی کیفیت ہوتی ہے جس کا جواب دینے والوں کوکوئی تردد نہیں کرنا پڑتا۔بس اپنا کمنٹ دیا اور دل کی بھٹراس نکال لی۔کچھ پہلو اگرچہ مزاح اور طنز کا ہوتا ہے مگر اکثر جوابات دلچسپ اورسچے ہوتے ہیں۔مثلا گذشتہ دنوں میں نے ایک سوال کیاکہ " آپ کے شہر میں سرکاری سکول آخری بارکب بنا تھا"۔زیادہ تر جوابات میرے ہی شہر گوجرانوالہ کے لوگوں نے دیئے۔ایک صاحب کااشارہ غالبا گورنمنٹ کمپری ہینسو سکول ماڈل ٹائون کی طرف تھا۔یہ سکول پیپلز پارٹی کے دور میں بناتھا۔اس کے ساتھ ساتھ جی ٹی روڈ پر ایک اوور ہیڈ برج اورلوگوں کی رہائش کے لئے پیپلز کالونی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔اس کے بعد دہائیاں بیت گئیں۔نصف صدی سے سرکاری سطح پر کوئی سکول بنا نہ کوئی رہائشی کالونی ،البتہ اوورہیڈ برج کوایک نئی شکل دے کر اس کی افادیت ضرور کم کردی گئی۔چلیں اپنے سوال کی طرف واپس آتے ہیں۔ریاست پاکستان نے قوم کے بچوں کومفت تعلیم اور صحت دینے سے انکار کردیا اوراپنے ہاتھ کھڑے کردیئے۔نہ صرف تعلیم سے بلکہ پر اس چیز سے جس کی ضمانت آئین پاکستان نے دی ہے۔ سکول کے سوال کے جواب میں اکثر عمر رسیدہ لوگوں نے بھی کہاکہ انہیں یاد نہیں کہ اس طر ح کا کوئی سکول ان کے ہوش میں قائم ہواہو۔زیادہ لوگوں نے ن لیگ کے ایک سابق وزیر تعلیم عثمان ابراہیم صاحب کو سخت سست کہا کہ وزیر تعلیم ہوکر بھی انہوں نے شہر میں کوئی سرکاری سکول قائم نہیں کیا۔اس افسوسناک حقیقت کا تعلق صرف گوجرانوالہ سے ہی نہیں بلکہ پورے پنجاب اورپاکستان سے ہوگا کہ شہروں اور دیہاتوں میں سرکاری سطح پر تھوڑی فیس یا مفت میں بچوں کو تعلیم دینے کے لئے کوئی سکول قائم نہیں کیا گیا۔غریب لوگ کس طرح اپنے بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر،اپنی ضروریات زندگی کوتلف کرکے ، بجلی اورگیس کا کم از کم استعمال کرکے اورایک وقت کاکھانا ،دووقت کھاکر پڑھاتے ہوں گے۔اس کا اندازہ کوئی عوامی منتخب نمائندہ ،کوئی بیوروکریٹ،کوئی جرنیل ،کوئی جج ،کوئی کارخانہ دار،کوئی بڑے سٹور کامالک ،کوئی پٹرول پمپ کامالک اورکوئی راشی افسر یا اہلکار نہیں کرسکتا ہوگا۔کیونکہ اس کے اپنے بچے لقمہ حرام کھانے کے علاوہ مہنگے مہنگے نجی سکولوں میں پڑھتے ہوں گے۔معمولی سے معمولی اہلکار جس کا تعلق عدلیہ سے ہے۔چاھے وہ اہلمد ہویا عدالت کا ریڈر یا پھر نقل برانچ یا رجسٹری برانچ میں۔ اس کے بچوں کودیکھیں کہ کتنے کتنے مہنگے سکولوں میں علم کی "دولت "بھی حاصل کررہے ہیں۔ایسے لوگوں کی زندگی کاحرامی پن فی الحال میرا موضوع نہیں ہے ،صرف بات یہ ہورہی تھی کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے ہم نے کوئی سرکاری سکول بنتے نہیں دیکھا۔البتہ ہمارے منتخب نمائندوں نے انہیں ختم کرکے اپنے ڈیروں میں ضروربدل لیا۔ایک اورسوال حال ہی میں ہونے والی "انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس "کے حوالے سے تھاکہ اس کانفرنس کا پنجابی ترجمہ کیا ہوگا۔ تقریبا ہر شخص نے الگ الگ جواب دیا۔پنجابی زبان کے ایسے ایسے ترجمے کئے گئے کہ سرپکڑ کربیٹھ گیا۔ایسی پنجابی زبان جو اس سے قبل سْن گْن میں نہیں آئی۔پتہ نہیں ہمارے پنجابی زبان کے ٹھیکیداروں نے یہ پنجابی کبھی گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ یاکبھی بازار میں کسی دکاندار کے ساتھ بولی ہو۔بہرحال میرے نزدیک"انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس"لفظی طورپر درست ہے۔اب یوم قائد اعظم کو "قائد اعظم دیہاڑ"کہنا کون سی خدمت ہے پنجابی زبان کی۔اگر دیہاڑہی لکھنا ہے تو پھر قائد اعظم کا بھی پنجابی ترجمہ کرو۔یہ پنجابی جو ٹھیکیدار لکھتے ہیں اسے عام پنجابی کے سامنے بھی نہیں بول سکتے۔ ایک سیمینار میں میں نے کہا تھا کہ ہمیں وہی پنجابی لکھنی چاہیئے جو ہم روزانہ اپنے گردوپیش میں بسنے والے لوگوں سے بولتے ہیں جس میں "اڈیکن ہار" دیہاڑ"،"چھترچھاں"کی گنجائش نہیں ہے۔ روزمرہ کے الفاظ میں کی جانے پنجابی شاعری کیلئے سعید آسی کا کلام اوران کی نثر سے استفادہ کیاجائے ۔اسے پڑھا اورسمجھا جائے تا کہ پنجابی اپنی اپنی لگے نہ کہ کوئی اجنبی زبان۔
چونکہ یہ دسمبرکامہینہ ہے اس لئے 16،دسمبر کے حوالے سے ایک سوال باربارپوچھا گیا کہ مطالعہ پاکستان میں یہ توبتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ڈھاکہ میں عمل میں لایا گیا۔مگر سقوط ڈھاکہ کے متعلق یہ مضمون کیوں خاموش ہے۔ مطالعہ پاکستان مادرملت کے ایوب خاں کے خلاف انتخابات ،انکی اورسابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کی بیروت میں پر اسرار شہادت اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکائے جانے کے موضوعات کیوں نہیں پڑھائے جاتے۔مارشل لاء کی تاریخ کے متعلق کوئی باب نہیں ہے۔کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ ملک"اسلامی جمہوریہ"ہونے کے باوجود اپنی پارلیمنٹ کی حفاظت آج تک کیوں نہیں کرسکا۔ 
افسوس ناکِ:۔ پنجاب کے لاہورکے علمی وسیاسی حلقوں کی رونق لارڈ نصیر ملہی کے فرزند ،لاہور ہائی کورٹ کے سدا بہار رکن افضال ملہی گذشتہ ہفتے وفات پاگئے۔افضال ملہی جہاں بیٹھتے اپنا جہاں آباد کرلیتے۔دوست احباب ان کی طرف کھینچے چلے آتے اورکچھ کو وہ خود کھینچ کر انتہائی محبت سے پاس بٹھا لیتے۔ملہی صاحب کے ساتھ میں نیویارک کے گلی گلی کوچے کوچے پھرا ہوں۔مگر جس سفر پر وہ اب روانہ ہوئے ہیں یہ یکا وتنہا ہی کٹنے والا ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے۔

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن

عالمی یوم جمہوریت اور پاکستان 

جمہوریت آزاد،مضبوط اور خوشحال وفاقی ریاست کی ضمانت ہے۔جمہوریت عوامی خواہشات کے مطابق نظام ریاست کی تشکیل کا نظام ہے۔ یہ ...