اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ)سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی سقم ہیں ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں انتخابی نشان اور سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم تو جاری کر دیا ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن پرڈ کلریشن نہیں دیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریما رکس دیے ہیں کہ ہائی کورٹ کو سب سے پہلے آرٹیکل 17کا ڈکلریشن دیناچاہیئے تھا کہ 22دسمبر کے انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی کے آئین کے مطابق منعقد ہوئے تھے یا نہیں؟انتخابی نشان دینا اور سرٹیفکیٹ کا اجرا تو ڈکلریشن کے نتیجے میں ہی ہوں گے،انہوںنے مزید ریمارکس دیے کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے ،جمہوریت ملک میں بھی اور سیاسی جماعت میں بھی ہونی چاہیے ، آئین کے آرٹیکل 17کے تحت جس طرح سیاسی جماعت بنانا بنیادی حق ہے اسی طرح سیاسی جماعت کے ہر ممبر کا حق ہے کہ وہ پارٹی کے عہدے کے لئے انتخاب لڑ سکے،ہر ممبر کو انتخاب لڑنے کی آزادی نہیں ہوگی تو سیاسی جماعت میں بھی آمریت قائم ہوجائے گی،انہوںنے کہا کہ اگر انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی کے آئین کے مطابق نہیںمنعقد ہوئے تو پھر اس کے نتائج بھی ہوں گے، دوران سماعت عدالت نے پی ٹی آئی کے 8جون 2022کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے اور 22دسمبر 2023کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم کرنے کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ جب پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن پر لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار قبول کیا تو پھر دوسری ہائی کورٹ میں کیوں گئی تھی؟کبھی ایک اور کبھی دوسری ہائی کورٹ کیا پی ٹی آئی مرضی کی شاپنگ کررہی تھی ؟عدالت نے پی ٹی آئی کے دو امیدواروں کی جانب سے 22دسمبر کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے پر بھی سوال اٹھایا،چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج اور پشاورور ہائی کورٹ کے فیصلے میں تضاد آگیا ہے ،سنگل جج نے درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم کرنے کے لیے پہلے الیکشن ایکٹ کی متعلقہ شقوں کو کالعدم کرنا ہوگا اور مذکورہ متعلقہ شقیں کسی نے چیلنج نہیں کی ہیں ،انہوں نے کہا کہ دو ہائی کورٹوں سے رجوع کرکے پی ٹی آئی نے خود اپنی ٹانگوں پر کلہاڑی ماری ہے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج دن دس بجے تک ملتوی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل کو ہدایت کی ہے وہ تین سوالات کا جواب دیں کہ پی ٹی آئی کے آئین میں انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کا ذمہ فیڈرل الیکشن کمشنر کو سونپا گیا ہے تو زیرغور انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد میں چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی کا لفظ کیوں لکھا گیاہے؟ انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے فیڈرل الیکشن کمشنر سمیت سات ارکان کا بورڈ بنتا ہے، کیا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دیگر چھ صوبائی الیکشن کمیشن ممبران نے دستخط کیے ہیں اور اگر دستخط کیے گئے ہیںتو ان کی دستاویزات کہاں ہیں، اگر دستخط نہیں کیے گئے تو کیا وجوہات ہیں، الیکشن کمشنر کا تقرر سیکرٹری جنرل کرتا ہے اور پی ٹی آئی ریکارڈ کے مطابق پارٹی سیکرٹری جنرل اسد عمر تھے لیکن زیر غور معاملے میں عمر ایوب نے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا ہے،کیا اسد عمر نے استعفی دیاتھا یا انہیں نکالا گیا تھا؟عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی ہے کہ رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ سے رابطہ کرکے بتائے ںکہ کیا کیس کا تفصیلی جاری ہوچکا ہے اور اگر نہیں تو کب تک آجائے گا؟ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ہے کہ اس معاملہ میں بار ثبوت پی ٹی آئی پر ہے کیونکہ اس نے دستاویزات سے ثابت کرنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق منعقد ہوئے تھے ،دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے پشاور کے دیہات میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے چمکنی میں ایک چھوٹے گائوں نور گڑھی کا انتخاب کیوں کیا گیاتھا؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روزکیس کی سماعت کی تو الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہوئے ہیں،پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے فیڈرل الیکشن کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے،فیڈرل الیکشن کمیشن الیکشن کمشنر اور چھ ممبران پر مشتمل ہوتا ہے لیکن زیر غور معاملے میں الیکشن کے لیئے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیاتھا،الیکشن کمشنر کی نشست خالی ہو تو سیکرٹری جنرل اس پر تعیناتی کرتا ہے اور زیر غور کیس میں عمر ایوب نے تقرری کی ہے جبکہ ریکارڈ کے مطابق اسد عمر پارٹی سیکرٹری جنرل ہیں،انہوںنے کہاکہ ریکارڈ پر نہ تو اسد عمر کا استعفی موجود ہے اور نہ ایسی کوئی دستاویز جو ثابت کرے کہ اسد عمر کو پارٹی سے نکالا گیا تھا؟ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے مطابق عمر ایوب 22دسمبر کے انٹرا پارٹی الیکشن میں سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے ،اگر انتخاب 22دسمبر کو منعقد ہوئے تو کس اختیار کے تحت انہوں نے منتخب ہونے سے پہلے سیکرٹری جنرل کا اختیار استعمال کیا؟ان کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے اختیار ات سے تجاوز کیا ہے ،آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے،سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کیے بغیر آزادانہ و شفاف انتخابات ممکن نہیں ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا پی ٹی آئی نے رٹ میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا ؟مخدوم علی خان نے رٹ کی استدعا پڑھ کر سنائی اور کہا کہ استدعا صرف بلے کانشان واپس کرنے اور سرٹفکیٹ ویب سائٹ پر جاری کرنے کی تھی،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار چیلنج کیے بغیر الیکشن کمیشن کے اقدامات کو کیسے کالعدم کیا جاسکتا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ رٹ میں آرٹیکل 17اور25کے تحت حاصل دو بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے،آرٹیکل 17سیاسی جماعت کے ساتھ ساتھ جماعت کے ممبران کے حق کو بھی تحفظ دیتا ہے،انہوںنے کہا جہاں تک آرٹیکل 25کا معاملہ ہے تو الیکشن کمیشن بتائے کہ یہ برتائو صرف پی ٹی آئی کے ساتھ ہے ؟یا سب جماعتوں کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا ہے؟جس پرالیکشن کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ 13جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی گئی ہے،چیف جسٹس نے کہا ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے ساتھ الیکشن کمیشن کا رویہ اب سخت ہوگیا ہے؟توالیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے آخری انٹرا پارٹی الیکشن جون 2017میں ہوئے تھے،الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے لیے مراسلے لکھے تھے ،پارٹی کے ساتھ خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا لیکن درمیان میں کرونا آگیا ،پی ٹی آئی کی درخواست پر ایک سال کی مہلت دی گئی تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی سخاوت ،جب تک پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو الیکشن کمیشن نے نرمی کی لیکن خط و کتابت ہورہی تھی،الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ تمام عہدیدار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چیک کرکے بتائیں کہ باقی جماعتوں میں بھی انتخاب بلا مقابلہ ہوا یا صرف پی ٹی آئی کے کیس میں ایسا ہے؟ مخدوم علی خان نے معاملہ دو ہائی کورٹوں میں اٹھانے کا سوال اٹھایا تو پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انفرادی حیثیت میں رٹ کی گئی تھی تھی ، پی ٹی آئی کااس سے کوئی تعلق نہیں ہے،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہی معاملے پر دو ہائی کورٹوں کی رائے میں تضاد آگیا ہے، اب اس کا کیا کریں گے؟ انہوںنے کہاکہ یہاں سے ریلیف نہ ملے تو اس ہائی کورٹ میں جائے، یہ سسٹم کو خراب کرنے والی بات ہے،انٹرا پارٹی الیکشن پشاور کے مضافات میں کرانے کے سوال پر حامد خان نے کہا کہ سیکورٹی مسائل کی وجہ سے اس جگہ کا انتخاب کیا گیاتھا،عدالت کے استفسار پرانٹرا رپارٹی انتخابات کے کئے مقر رکئے گئے چیف کمشنر نیاز اللہ نیازی نے بتایا کہ وٹس ایپ پر ممبران کو لوکیشن کا بتایا گیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں پورے ملک سے لوگ شامل ہوئے تھے ،ہمارے پاس ویڈیو موجود ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا ویڈیو باہر جاکر لگادیں،عدالت کے استفسار پر چیئر مین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پارٹی کے 837950ممبران ہیں،عدالت نے استفسار کیا کہ کسی ا ور نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کیے تھے اور اگر کیے تھے تو ریکارڈ پر کیوں نہیں ہیں،تو مخدوم علی خان نے کہا کہ جون 2022کے انٹرا پارٹی الیکشن پر پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ قبول کیا تھا،چیف جسٹس نے کہا جب فیصلہ قبول کیا تو لاہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس کیوں نہیں لی گئی تھی ؟حامد خان نے کہا کہ جب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ منعقد ہوئے تو ہائی کورٹ میں زیر سماعت معاملہ غیر موثر ہوگیا، گوہر علی خان نے کہا کہ ہائی کورٹ میں معاملہ اس لیے رہنے دیا گیا کیونکہ الیکشن کمیشن عمران خان کو پارٹی کی چیئر مین شپ سے ہٹا رہا تھا ،قبل ازیںسماعت کی ا بتدا میں حامد خان نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ اور کہا کہ اپیل قابل سماعت نہیں ہے،الیکشن کمیشن نیم عدالتی ادارہ ہے اور سپریم کورٹ یہ طے کرچکی ہے کہ کوئی عدالت اپنے فیصلے کے خلاف دادر رسی کے لیے اپیل نہیں کرسکتی ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپیل قابل سماعت نہیں ہے تو ہائی کورٹ میں آپ کی رٹ بھی قابل سماعت نہیں تھی،الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے،کیا ایک آئینی ادارے کے خلاف رٹ قابل سماعت ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن اپنے فیصلوں کا دفاع نہیں کرے گا؟تو ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کیسے ہوں گے؟حامد خان نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اگر کوئی فیصلہ آیا ہے تو متاثرہ فریق اس کے خلاف اپیل کا مجازہے ،الیکشن کمیشن خود نہیں؟انہوں نے اس ضمن میں کمپٹیشن کمیشن اور محتسب کے فیصلوں سے متعلق عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے تو چیف جسٹس نے کہا کسٹم ٹربیونل بھی ایک نیم عدالتی فورم ہے اور ہم روز کسٹم ٹربیونل کی اپیلیں سنتے ہیں،انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور کمٹیشن کمیشن کی نوعیت مختلف ہے،دوران سماعت اکبر ایس بابر کے وکیل نے بھی دلائل دیے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع کیا ،عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ان کے موکل کے پارٹی میں اختلافات 2014میں ممنوعہ فنڈز کے معاملے پر پیدا ہوئے تھے،ان کا موکل پارٹی کا بانی رکن تھا اور اب بھی ہے،نہ انہوں نے استعفی دیا ہے اور نہ ہی انہیں نکالا گیا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بانی ممبر کو تو پارٹی سے نکالا بھی نہیں جاسکتا ہے ،بعد ازاں عدالت نے حامد خان ایڈوکیٹ سے پی ٹی آئی کے بانی ممبران کی فہرست طلب کر لی۔دریں اثناچیف جسٹس نے کہا ہے کہ پشا ور ہائیکورٹ نے ایسی ڈکلیریشن نہیں دی کہ انٹر ا پا رٹی الیکشن درست تھے،اتنا کہا کہ بلا کا انتخا بی نشان پی ٹی آئی کو دیا جا ئے ،پشاور ہا ئیکورٹ کے فیصلہ میں سقم ہیں۔کیس کی مز ید سماعت آج پھر ہوگی۔