قصہ ’’فوٹیج‘‘ کھانے کا 

Jan 13, 2024

عبداللہ طارق سہیل

ایک فلم میں سین کچھ یوں تھا کہ اداکار سنجیو کمار کو بس سٹاپ پر کھڑے ہو کر چند لمحے انتظارکرنا ہے اور بس کے آتے ہی اسمیں سوار ہونا ہے۔ سین شروع ہوا، بس آتی دکھائی دی، پھر رک گئی اور دوبارہ چلی تو رفتار آہستہ تھی۔ سنجیو کمار نے بس کی طرف دیکھ کر برجستہ فقرہ کہا، جلدی آبھی جا، کیوں ’’فوٹیج‘‘ کھا رہی ہے۔ یہ فقرہ سکرپٹ میں نہیں تھا، معمولاً اسے کاٹ دیا جاتا لیکن ڈائریکٹر کو پسند آ گیا، نہیں کاٹا اور فلم میں بھی چل گیا۔ 
یہ بہت پرانی بات ہے جب عام ناظرین فلمی صنعت کی اصطلاحات سے واقف نہیں تھے۔ جو لوگ واقف تھے، وہ اس آؤٹ آف سکرپٹ فقرے سے محظوظ ہوئے، جو ناواقف تھے، وہ مطلب تو نہیں سمجھے لیکن مدعا سمجھ گئے۔ سین جتنا لمبا ہو گا، سلو لائیڈ فیتے کے اتنے ہی فٹ صرف ہوں گے، اسی کو ’’فوٹیج‘‘ کھانا کہتے ہیں۔ 
پاکستان کا حالیہ سیاسی ڈرامہ بھی بہت ’’فوٹیج‘‘ کھا چکا لیکن اب آتی بس کی رفتار تیز تر ہو تی ہوئی لگ رہی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مزید فوٹیج ضائع نہیں ہو گی، کلائمکس قریب ہے جس کے بعد پردہ گرا دیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ اس تیز رفتار سلسلہ واقعات کی تازہ کڑیاں خاصی سنسنی خیز ہیں، تماشائی اپنی سیٹوں پر ’’آن دی ایج‘‘ ON THE EDGEنظر آرہے ہیں۔
_____
ایک واقعہ سنجیدہ نوعیت کا ہوا لیکن اس کے ساتھ ایک لطیفہ بھی جڑا ہے۔ لطیفہ پہلے سن لیجئے، مطلب دوبارہ سن لیجئے کہ بہت بار پہلے بھی سن چکے ہوں گے۔ یہ کہ ایک بڑھیا گائوں والوں سے ناراض ہو گئی اور اپنا مرغا بغل میں دبا دوسرے گائوں روانہ ہو گئی،جاتے جاتے کہا، مرغا لے جا رہی ہوں، نہ اس کی اذان ہوگی نہ تمہارے گائوں میں صبح ہو گی۔ 
واقعے یہ ہوا کہ آئی ایم ایف نے 70 کروڑ ڈالر قرضے کی قسط ادا کر دی ہے جسے روکنے کیلئے گریٹ خان کے قائم مقام گوہر خاں نے آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات کر کے کہا تھا، ہم اپنا مرغا واپس لیتے ہیں اور پھر اہل وطن کو پی ٹی آئی نے یہ نوید سنائی تھی کہ اب قرضے کی وصولی کو بھول جائو، دیوالیہ ہونے کیلئے تیار رہو۔ 
مرغا بدستور گوہر جان کی بغل میں ہے لیکن گائوں میں اس کی بانگ کے بنا ہی سحر ہو گئی ہے۔ تادم تحریر گوہر جان کا ردّعمل سامنے نہیں آیا۔ 
_____
آگے پیچھے سپریم کورٹ کے دو جج بھی رخصت ہو گئے۔ پہلے مظاہر نقوی پھر ان کے اگلے روز اعجاز الاحسن صاحب۔
نقوی صاحب کیخلاف ریفرنس دائر تھا، دوران سماعت اندازہ ہو چلا تھا کہ شواہد خاصے ٹھوس ہیں، نقوی صاحب ’’تلے‘‘ جائیں گے چنانچہ انہوں نے استعفیٰ دینے ہی میں اپنی پنشن اور مراعات کی خیر جانی لیکن ہوا۔ یہ کہ جو ڈیشل کونسل نے استعفے کو خاطر میں لانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بیچ سماعت میں استعفے دینے کی کوئی تک نہیں، کارروائی مکمل کی جائے گی۔ یوں پندرہ لاکھ مہینے کی تنخواہ ا ور مراعات پھر خطرے میں پڑ گئیں۔ 
اعجا ز الاحسن کے خلاف بھی دو ریفرنس دائر ہونے والے تھے، ایسا سبھی باخبر اخبار نویسوں نے بتایا۔ چنانچہ اعجاز الاحسن اگر ریفرنس کی سماعت کا انتظار کرتے تو نقوی صاحب کی طرح رگڑے جاتے۔ انہوں نے ریفرنس دائر ہونے سے پہلے ہی استعفیٰ دینے میں خیریت جانی۔ یعنی دانشمند ہونے کا مظاہرہ کیا۔ سنا ہے معاملہ نیب میں بھی جا سکتا ہے۔ وہی نیب جسے اعجاز صاحب نے دھمکاتے ہوئے حکم دیا تھا کہ نواز شریف کو یہ اور یہ سزا دو ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ 
____
اعجاز الاحسن وہی ہیں جنہوں نے پانامہ کیس میں یہ تاریخی ’’اقوال زریں‘‘ ادا کئے تھے کہ ایسا فیصلہ دیں گے کہ صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ چھ سال ہی میں یہ فیصلہ بھی اڑ گیا اور خود اعجاز صاحب بھی اڑ گئے۔ 
اعجاز الاحسن کا تعلق اس ’’تاریخی‘‘ تین رکنی بنچ سے ہے جس نے ہر اہم معاملہ اپنے پاس ہی سماعت کیا۔ اسی بنچ نے وہ شاہکار فیصلہ بھی دیا تھا جس نے ’’آئین‘‘ کے ہوش بھی اڑا دئیے تھے۔ 
فیصلہ تحریک عدم ا عتماد (قومی اسمبلی ) اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے مواقع پر دو قسطوں میں دیا گیا۔ خلاصہ اس فیصلے کا یہ تھا کہ اگر گریٹ خان کی پارٹی کا کوئی رکن منحرف ہو کر مخالفوں کو ووٹ دے گا تو وہ ووٹ مسترد اور ڈالنے والا نااہل تصور ہو گا اور اگر مخالف پارٹی کا رکن منحرف ہو کر گریٹ خان کو ووٹ دے گا تو وہ ووٹ گنا بھی جائے گا اور ووٹ دینے والا بدستور اہل تصور ہو گا۔ 
انصاف کا بول اس طرح بھی بالا ہوا لیکن افسوس یہ کہ جس بہار کی توقع میں آئین کا خون کیا گیا، وہ آنے سے پہلے ہی خزاں میں بدل گئی۔ ماہرین موسمیات اس خزاں کا دورانیہ دس سال بتاتے ہیں جس میں سے ایک سال گزر گیا، باقی بچے نو سال…
____
ایک کیس البتہ ’’فوٹیج‘‘ کھا رہا ہے اور وہ ہے وہی سائفر والا کیس۔ جب بھی گواہوں کی اکثریت بھگت چکی ہوتی ہے اور کارروائی ختم ہونے کو ہوتی ہے، آرڈر آ جاتا ہے کہ اب تک کی تمام کارروائی کالعدم، نئے سرے سے شروع کرو۔ دو بار ایسا ہو چکا، تیسری بار ایسا ہونے کی توقع اگلی سماعت پر کی جا سکتی ہے۔ 
دیکھئے، ’’فوٹیج‘‘ پر جن کا خرچہ آ رہا ہے، وہ ا س گھمبیر سمسّیا کا اپائے کہاں سے لاتے ہیں۔ 
____
شیخ آف چلّہ شریف کے باب میں ’’فوٹیج‘‘ تو ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ چند رو پیشتر انہوں نے بندی خانے میں بند گریٹ خان کے حضور یہ عرضی دوسری بار گزار دی تھی کہ میری قربانیوں کا کچھ تو صلہ دو، میرے مقابلے پر پی ٹی آئی کا امیدوار بٹھا دو۔ کہتے ہیں یہ عرضی، پہلی بار کی طرح، دوسری بار بھی مسترد کر دی گئی۔ لگتا ہے کہ شیخ جی کا طویل سیاسی سفر اپنے انجام کو پہنچا۔ اب محض یہ بیان آنا ان کی طرف سے باقی ہے کہ ’’اپنی فوٹیج ختم ہوتے دیکھ رہا ہوں‘‘

مزیدخبریں