ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر سے کوئی پوچھے۔ کیا صوبہ سرحد کا نام پختون خواہ رکھنے پر چاروں صوبوں نے اتفاق رائے کیا تھا؟ اس پر تو صوبہ سرحد بھی ’’متفق‘‘ نہیں تھا بلکہ ابھی تک یہ مخالفت پوری شدومد سے جاری ہے۔ ایوانِ صدر کے ترجمان نے جو زیادہ دلچسپ بات کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم پر سودے بازی نہیں ہوگی۔
انکے اس دعویٰ کو ’’ایوانِ ولی خاں‘‘ نے یہ انکشاف کر کے جھٹلا دیا ہے کہ اس پر تو پہلے دن ہی سودے بازی ہو گئی تھی۔ صدر زرداری یا حکومت سے تعاون اور اتحاد کچھ شرائط پر ہوا تھا۔ ایک صوبے کا نام پختون خواہ رکھنا ہے اور دوسرے کالاباغ ڈیم نہیں بننا ہے۔ بلکہ اسے ہمیشہ کیلئے ترک کرنے کا اعلان کرنا ہے حکومت نے ملک و قوم اور 18کروڑ ’’رعایا‘‘ کے مفاد کو پس پشت ڈال کر دونوں شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے آنکھیں بند کر کے دستخط کر دیئے تھے اور اس کا برملا اعلان کرنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگائی۔ صوبہ سرحد اور وفاق دونوں نے صوبہ سرحد کو پختون خواہ کہنا بلکہ لکھنا شروع کر دیا اور حکومت نے وفاقی وزیر پانی و بجلی سے کالاباغ ڈیم کا وہ عظیم منصوبہ جو فطرت کا شاہکار ہے اور جس پر قوم نے اربوں روپے خرچ کر رکھے ہیں اور جس میں اس بھوکے پیاسے پاکستان کی جان ہے۔ انتہائی سفاکانہ طریقہ سے ترک کرنے کا اعلان کرا دیا۔ (افسوس کہ اس ظلم کیخلاف ملک کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا ردعمل وہ نہیں تھا جو ہونا چاہئے تھا۔)
یہاں مجھے ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک کسان نے قصائی کو کٹا فروخت کر دیا۔ قصائی رقم لیکر حویلی میں گیا تو کسان کا بیٹا وہاں کتاب پڑھ رہا تھا۔ قصائی نے رقم اسکے حوالے کی اور کھونٹے سے کٹے کا رسہ کھول لیا۔ دریں اثناء کٹے نے اجنبی کی بے رحم آنکھوں میں جھانک لیا اور اس نے حویلی سے باہر قدم رکھنے سے صاف انکار کر دیا۔ قصائی اسے باہر لے جانے کیلئے جتنا زور لگاتا کٹا اپنے دفاع میں اس سے زیادہ زور لگاتا۔ اسی کشمکش میں قصائی بے دم ہو گیا۔ ھَف اور پریشان ہو کر لڑکے کے پاس گیا کہ کٹے کو حویلی سے باہر لے جانے میں مدد کرے۔ لڑکے نے کتاب رکھی اور کٹے کے قریب آکر اسکی پیٹھ تھپکی کٹے نے انگڑائی لی۔ اس نے کٹے کے منہ میں انگلی رکھی اور کٹا خوش خوش اسکے ساتھ ہو لیا۔ حویلی سے باہر قصائی شکریہ ادا کر کے رسہ تھامنے لگا۔ تو لڑکے نے رسہ پکڑانے سے انکار کر دیا بلکہ جیب سے رقم نکال کر قصائی کو واپس کر دی۔ قصائی نے حیران اور پریشان ہو کر پوچھا۔ برخوردار! بات کیا ہے؟ کیا پیسے تھوڑے ہیں؟ لڑکے نے کہا۔ نہیں بزرگو! پیسے تھوڑے نہیں ہیں۔ پھر وہ تھوڑی دیر خاموش رہا۔ اسکی آنکھیں نم تھیں۔ کہنے لگا۔ اس نے مجھ پر اعتماد کیا ہے۔ میں اس معصوم جانور کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا!
ہمارے مقتدر لوگ اس بدقسمت قوم کے 17 کروڑ ’’معصوم جانوروں‘‘ کے اعتماد کو نہایت بے دردی اور دیدہ دلیری سے ٹھیس پہنچانے میں ذرا دریغ نہیں کرتے۔ کل واپڈا کی ایک سنسنی خیز رپورٹ میں وارننگ تھی کہ 1951ء کے مقابلے میں پانی کی فی کس دستیابی 80 فیصد کم ہو گئی ہے۔ تربیلا، منگلا اور چشمہ میں سلٹ جم جانے اور دیگر عوامل کے باعث پانی سٹور کرنے کی گنجائش 41 لاکھ 80 ہزار ایکڑ فٹ کم ہو گئی ہے۔ 1951ء میں فی کس پانی کی دستیابی 5260 کیوسک میٹر تھی جو 2010ء میں صرف 1018 کیوسک میٹر رہ گئی ہے۔مگر یہاں ان باتوں کی کسے پرواہ ہے۔ ہمارا نظام ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ بنیادوں پر استوار ہے ہم اربوں نہیں کھربوں کے قرضے بے دریغ لیکر عیاشیاں کرتے ہیں کہ آنیوالی نسلیں ادا کرتی رہیں گی۔ کالاباغ ڈیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس کا وجود خوشحالی کا ضامن اور عدم وجود تباہ حالی کا پیش خیمہ ہے۔ اسکی افادیت اور اشد ضرورت کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ حال ہی میں سینٹ اور اسمبلیوں میں کالاباغ ڈیم کے حوالے سے جو آواز بلند ہوئی۔ مخالفین اس بارے میں صبر سے گفتگو سننے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اس کا نام سننے کے روادار نہیں۔ وہ دلائل سے ہرگز قائل نہیں ہونگے بلکہ فوری ردعمل کے طور پر سندھ اسمبلی نے ایک زوردار مخالفانہ متفقہ قرارداد منظور کی ہے۔ جس میں پنجاب کو بھی گالیاں دی گئی ہیں۔ جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔اس گھمبیر صورتحال کے پیش نظر ہی ماہرین نے کوئی ’’وایا میڈیا‘‘ کوئی درمیانی راستہ نکالنے پر زور دیا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی
باغبان بھی خوش رہے‘ راضی رہے صیاد بھی!
نئی تجویز یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کو پریشان نہ کیا جائے۔ ان کو نہ چھیڑا جائے۔ پنجاب اپنا مسئلہ خود حل کرے۔ وہ دریائے سندھ میں اپنے حصے کا پانی کالاباغ ڈیم میں ذخیرہ کرنے کا جتن کرے‘ اس کیلئے موجودہ ڈیزائن میں دی گئی دیواروں کی بلندی کو مزید کم کرنا پڑیگا۔اب تک کالاباغ ڈیم کے خلاف سرحد اور سندھ سے صحیح یا غلط دو ہی بڑے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ نوشہرہ اور صوبے کے چند دیگر مقامات ڈوب جائینگے دوسرا دریائے سندھ میں کوٹری بیراج سے نیچے ڈائون سٹریم پانی کی مناسب مقدار ڈیلٹا کیلئے ضروری ہے۔
ماہرین کے نزدیک یہ دونوں اعتراضات قطعی بے بنیاد ہیں۔ انکے نزدیک اگر ڈیم کی بلندی 925 فٹ بھی رہتی تو بھی صوبہ خیبر پی کے کے کسی شہر یا قصبہ کے ڈوبنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا تاہم اے این پی والوں کو مطمئن کرنے کیلئے ڈیزائن میں بلندی 10 فٹ کم کر کے 915 کر دی گئی مگر اسکے باوجود اے این پی کا پرنالہ وہیں رہا۔ اب صرف پنجاب کیلئے تو بلندی 900 فٹ سے بھی نیچے آجائیگی۔ یوں اونٹ کے سوار کو ’’کتورے‘‘ سے ڈرنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔جہاں تک سمندر میں مناسب مقدار میں پانی لے جانے کا سوال ہے۔ آبی ماہرین کے نزدیک کالاباغ ڈیم کو چاروں صوبوں کیلئے بھرنے کے باوجود 20 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے نیچے دستیاب رہے گا لیکن نئی تجویز کے بعد پنجاب کے سوا تینوں صوبوں کے حصے کا پانی بھی بدستور ٹھاٹھیں مارتا ہوا کوٹری بیراج سے نیچے بہتا رہے گا۔ یوں سندھ کا اعتراض بھی ختم ہوا۔
آپ حیران ہونگے کہ پاکستان کی قابل زراعت اراضی کا 73 فیصد حصہ پنجاب میں ہے باقی تینوں صوبوں کے پاس صرف 27 فیصد ہے مگر پنجاب کے لیڈر یہ ترلہ کرنے پر مجبور تھے کہ پنجاب کو پانی بے شک نہ دیں مگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہونے دیں۔ ہائے اس یتیم صوبے کی بے بسی! پنجاب اپنا ڈیم بنائے‘ نئی نہریں نکالے‘ سابقہ نہروں کو فل کرے‘ چولستان آباد کرے‘ اتنا غلہ پیدا کرے کہ سارے پاکستان کو خوشحال کر دے‘ اتنی سستی اور وافر بجلی پیدا کرے کہ صنعت کو فروغ حاصل ہو۔ بے روزگاری ختم ہو، لوگ خودکشیاں نہ کریں۔سڑک کنارے دوا فروش نے دوا کے حق میں لیکچر دیا اور پوچھا کسی بھائی کو کوئی اعتراض ہے؟ ایک نوجوان کھڑا ہوا اور بولنے لگا تو دوا فروش نے اُسی روانی میں کہا۔ ’’تم اپنی زبان مبارک کو بند رکھو۔ ’’ہاں! اور کسی بھائی کو اعتراض ہے‘‘
سو آبی ماہرین کی نئی تجویز کے بعد اور کسی بھائی کو اعتراض ہے؟