ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بارے میں جس طرح کا غیر معمولی ردعمل اور صدمے کا اظہار سامنے آیا ہے، اسکے پیش نظر ہمیں اس کے چند پہلو ذہن میں رکھنا ہوں گے کہ اسکے بغیر کسی طرح کے بھی ماہرانہ تجزئیے اور غیر جانبدارانہ جائزہ سے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہ ہو گا اور نہ اس واقعے کی اہمیت اجاگر ہو گی۔ پہلی بات۔ کیا واقعی اس رپورٹ نے ہماری معلومات میں کوئی اضافہ کیا؟ کیا دنیا کو کچھ ایسی باتوں کا پتہ چلا جو وہ پہلے نہیں جانتی تھی۔ کمیشن جولائی 2011ءمیں اسامہ بن لادن کے قتل کے دو ماہ بعد قائم ہوا۔ اس وقت سے OPERATION NEPTUNE SPEAR ہی نہیں بلکہ پاکستان اور امریکہ میں رونما ہونیوالے واقعات، ٹی وی مباحثوں، پروگراموں، فیچرز، ڈاکومینٹریز اور فلموں تک پر یہ موضوع چھایا رہا اور اس کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں ڈالٹن فیوری کی KILL BIN LADIN، مارک اووین اور کیون مارر کی NO EASY DAY ہو یا مارک باوڈن کی کتاب THE FINISH۔ ان سب میں اس واقعے کی آپریشنل تفصیلات موجود ہیں، لیکن سچی بات ہے کہ ان سے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کو سمجھنے میں کوئی مدد نہیں ملتی اور نہ ہماری معلومات میں کوئی زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ پھر پیٹر ایل برجن کی بڑی عمدہ تحقیقی کتاب MAN HUNT- TEN YEARS SEARCH FOR BIN LADIN ہے یا ڈیوڈ سنجر کی OBAMA'S WAR ہے جن میں مختلف پہلوﺅں اور زاویوں سے مزید معلومات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بچوں کے لئے مارسیا لسٹیڈ ایمی ڈون کے منظرعام پر آنے والے کتابی سلسلے CAPTURE AND KILLING OF OSAMA BIN LADIN میں بھی اسی موضوع پر خیال آرائی کی گئی۔ اسی طرح کی مختلف النوع دلچسپ رودادوں، رپورٹوں، تجزیوں، ہوائی باتوں اور خیال آرائیوں کے بعد آج کے انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، فیس بک اور ٹوئیٹر کے دور میں اتنا کچھ کہا اور سنا گیا کہ اس کا ہر پہلو پوری طرح عیاں ہو گیا۔ اس کے بعد ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ اس میں بمشکل ہی کسی ایسی بات کا اضافہ کر سکتی تھی جو میڈیا اور کوئی باخبر پاکستانی شہری یا دنیا پہلے نہ جانتی ہو۔ دوسری اہم بات۔ یہ سچ ہے کہ ہم جانتے تھے کہ اسامہ بن لادن سیٹلائٹ نگرانی سے بچنے کیلئے ”کاﺅ بوائے“ ہیٹ پہنتا تھا۔ اُسے سوات میں ٹریفک پولیس کا کوئی سپاہی بھی گرفتار کر سکتا تھا۔ اس نے کوئی پراپرٹی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اسکے سرپرستوں نے ایبٹ آباد میں بلڈنگ کوڈ کی تضحیک کی۔ اسکی بیویاں بھی اس کے سخت مزاج اور کڑی پابندیوں کی وجہ سے نالاں تھیں۔ اس رپورٹ میں کچھ بھی ایسی چٹپٹی باتوں کی تفصیلات یا کوئی اور تاریخی نوعیت کی کوئی بات موجود نہیں۔ اس سے بن لادن کے بارے عالمی رپورٹوں اور نقطہ نظر میں کوئی ہلکی سی تبدیلی بھی نظر نہیں آتی۔ تیسری بات ٹی وی چینلز اور اخبارات مصنوعی برہمی کا اظہار کر رہے ہیں کہ جنرل پاشا نے کمیشن کو بتایا کہ ڈرون حملے سیاسی رضامندی اور مفاہمت سے ہوتے ہیں۔ ایک بڑے انگریزی اخبار نے تو اسے اپنی شہ سرخی بنا کر بھی چھاپ دیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی ہم یہ بات پہلے نہیں جانتے تھے؟ کیا ہم مغربی سرحدوں پر لگے ناکارہ ریڈاروں کے بارے میں نہیں جانتے تھے؟ اور پاکستانی طیارے اس وقت فضا میں بلند ہوئے جب امریکی پہلے ہی جا چکے تھے یا ہم آئی ایس آئی، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے کہ اس عمل میں کیا خلا تھا۔ کیا ہمیں ایسے کمیشن کی ضرورت ہے جس سے وضاحت ہو سکے کہ ڈرون حملوں کیخلاف عوامی ردعمل اور اس پر ہمارے تحفظات کی۔ یہ رپورٹ اگرچہ 2012 کے اوائل میں ہی سامنے آ چکی تھی۔ کم از کم ایبٹ آباد لیٹرز سے پہلے جو کمپیوٹر ڈیٹا پر مئی 2012 کو سامنے آئی۔ ان لیٹرز سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل جوھن ابی زید کے دہشت گردی کیخلاف لڑنے والے یونٹ (CTC) کے مغربی حصے کے بارے میں اور اس رپورٹ میں کمپیوٹر معلومات، کاغذات اور جو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کے حملے کے بعد بکھرے ہوئے مواد سے حاصل کیا گیا۔ جس نے اس کہانی کی تشکیل میں اہم کام سرانجام دیا ہے۔ آخری دنوں اور مہینوں کے بارے میں جب اسامہ پاکستان میں تھا اس رپورٹ میں پاکستانی پولیس‘ انٹیلی جنس اور دوسرے اداروں کو انکی ناکامی پر لعن طعن کیا گیا اور پاکستان نے ابتدا ہی سے جو وضاحتیں کیں‘ وہ اب تک کر رہے ہیں کہ کسی کو کوئی علم نہ تھا۔ اس موقف کو امریکہ و مغربی دنیا قبول کرنے کو تیار نہیںجبکہ اس ماہ کے آخری دنوں میں ابی زید اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان میں موجود تھا۔ مگر اسکے ساتھ ہی کچھ ایسے سوالات بھی اٹھے جو تشنہ ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کیا ایبٹ آباد میں جو شخص قتل ہوا مارا گیا وہ اسامہ بن لادن ہی تھا۔ اور کیا وہ پہلے ہی سے قید میں تھا۔ یا اسے نہایت محتاط جگہ رکھا گیا تھا اور OBL نے اسے نہایت مہارت کیساتھ استعمال کیا۔ اس بارے میں امریکہ اور پاکستان کے مفادات کے حوالے سے یہ رپورٹ مختلف قسم کے خیالات کو خواہ وہ کسی بھی طرح کے ہوں کہیں سے بھی آئے ہوں کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی ہے۔ تاہم ابھی تک ایک موہوم سی امید ہے کہ لوگ اس کمیشن کی رپورٹ کے ایک تخیلاتی اسلوب سے زیادہ اس میں موجود سچائی پر نظر رکھیں جو پاکستانی حکام کے نکتہ نظر سے واضح ہوتی ہو یا امریکی OBL کے سرکاری تذکرے سے۔ تاہم درست طور پر ہم یہ الزام دے سکتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو ایک ناقابل اعتماد شخص کی طرح نقصان پہنچایا‘ دھوکا دیا اور اسکے اس اقدام کی وجہ سے پاکستان میں ملک گیر پیمانے پر احتجاج بھی ہوا۔ کمیشن نے 52 سماعتوں 7 عملی شہادتوں اور 200 عینی شاہدوں کو سننے کے بعد سرکاری حکام کے ساتھ مل کر یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ اسکے علاوہ بن لادن کے حوالے پر بھی غور کریں کہ اس رپورٹ میں اسکی کہانی اور اسکے بیویوں کے حوالے سے جو کچھ درج تھا‘ کیا وہ قابل اعتراض نہیں۔ اسکے باوجود اب یہ رپورٹ ساری دنیا میں نشر ہو چکی ہے۔ تو یہ ایک درست موقع ہے کہ اسلام آباد کے حکام اسے کسی مناسب سرکاری فورم یا ادارے کے تحت شائع کریں۔ اس بارے میں اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ رپورٹ کس طرح ”الجزیرہ“ تک پہنچی اسکے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور وہ کون شخص ہے۔ اصل ملزم کو تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور اسکے اصل مقاصد معلوم کرنا ہونگے۔ اے پی سی کیلئے یہ مناسب وقت ہے۔ اور اس وقت بہتر بھی یہی ہے کہ اسلام آباد میں جمع تمام جماعتوں کو چاہئے کہ وہ سچائی کی تلاش کیلئے بھرپور مباحثہ کریں اور سیاسی ایجنڈے سے ہٹ کر اس بارے میں تمام حقائق جمع کریں اور اسے تمام تر سچائی کے ساتھ سامنے لائیں اور ان تمام پاکستانی محکموں اور اداروں کی اس سلسلے میں ناکامی پر غور و فکر کریں کیونکہ اس سارے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ اس آپریشن کے حوالے سے ہمارے ریاستی ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔